یہ ایک ایسا مرض ہے۔ بیش تر مرد خواتین کو اس بری طرح گھورتے ہیں کہ شریف قسم کے مردوں کو بھی شرم آجاتی ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس شہوت پرستانہ عمل کو برا سمجھنے کی بجائےاسکی تاویل( Justify ) کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اکثر لوگ تو اس برے عمل کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ قرآن میں پرودگارِ عالم کا ارشاد ہے کہ:
’’بے حیائی کے قریب بھی مت جاؤ، خواہ وہ کھلی ہو یا چھپی۔‘‘، (انعام: 151)
اسی طرح ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ:
قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَیٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ ﴿٣٠﴾ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ]
’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزگی ہے۔ لوگجو کچھ کریں گے اللہ سب سے خبردار ہے۔ اور مؤمن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں لیے رکھیں۔‘‘، ( سورۂ نور: 30-31)
ابن قیم ؒ اپنی کتاب الجواب الکافی میں رقم طراز ہیں : زنا کا آغاز نظروں سے ہوتا ہے، اسی لئے شرمگاہ کی حفاظت سے پہلے نگاہوں کی حفاظت کی تاکید کی گئی، چونکہ تمام واقعات کا آغاز نگاہوں سے ہوتا ہے۔ جس نے اپنی نگاہوں کو آزاد چھوڑ دیا، اس نے اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈالا، انسان کو پہنچنے والی عام مصیبتوں اور آفات میں سب سے پہلے نظر کے ذریعے ہی مصیبت اور پریشانیاں پہنچتی ہیں، جب انسان نظروں کی لاپرواہی کے سبب مصیبت میں پڑ جاتا ہے تو پھر اسے سوائے افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا، وہ ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ اس پر اسے نہ صبر کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور نہ اسے چھوڑنے کی، اور یہ انسان کے لئے سب سے بڑا عذاب ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ذَٰلِكَ أَزْكَیٰ لَهُمْ [
یہ ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے] [سورة النور: 30-].
یعنی نگاہوں اور شرمگاہ کی حفاظت نفس کے لئے زیادہ پاکیزہ اور دین کے لئے زیادہ مفید اور مومن کے لئے دنیا و آخرت میں زیادہ کارآمد ہے۔
اللہ تعالیٰ نے غض بصر یعنی نگاہوں کو نیچی رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا حکم بندوں پر مشقت کے طور پر ہرگز نہیں دیا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے لئے ایک عظیم رحمت ہے، اگر اللہ تعالیٰ اس باب کو کھول دیتے یعنی بندوں کو اختلاط اور غیر محرم عورتوں سے ملنے جلنے کی عام اجازت ہوتی تو عزتیں پامال ہوتیں، حسب ونسب کا خیال نہ رہتا اور روئے زمین میں فساد مچ جاتا۔
یہ آیات بالکل دوٹوک انداز میں بدنگاہی کی مذمت کررہی ہیں۔ احادیث میں بھی اس ضمن میں بڑی وضاحت موجود ہے۔ مثلاً حضرت جریرؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک نگاہ پڑجانے کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اپنی نگاہ فوراً ہٹالو (مسلم)
حضرت علیؓ سے آپﷺ نے فرمایا کہ راستوں میں بیٹھنے سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا کہ اگر کام کاج کے لیے ضروری ہوتو فرمایا کہ تو پھر راستوں کو حق ادا کرتے رہو۔ لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے؟ فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا، کسی کو ایذا نہ دینا، سلام کا جواب دینا، اچھی باتوں کی تلقین کرنا اور بری باتوں سے روکنا۔ (بخاری)
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا: جب کسی کی نگاہ عورت کے حسن و جمال پر پڑجائے اوروہ اپنی نگاہ ہٹالے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک ایسی عبادت عطا فرماتا ہے جس کی لذت وہ دل میں محسوس کرتاہے۔ (احمد) ایک روایت میں ہے کہ جو زبان اور شرم گاہ کی حفاظت کی ضمانت لے میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔ (بخاری)
ایک اور حدیث ہے کہ ابنِ آدم کا زنا اس کے ذمہ لکھ دیا گیا ہے۔ جسے وہ لامحالہ پالے گا؛ آنکھوں کا زنا (شہوت سے) دیکھنا ہے۔ زبان کا زنا (شہوت کی بات) بولنا ہے۔ کانوں کا زنا (شہوت کی بات) سننا ہے۔ ہاتھوں کا زنا (شہوت سے) تھامنا ہے اور پیروں کا زنا (شہوت کی ناجائز تکمیل کے لیے) چلنا ہے۔ دل خواہش، تمنا اور آرزو کرتا ہے۔ پھر شرم گاہ یا تو سب کو سچا کردیتی ہے یا جھوٹا بنادیتی ہے۔ (بخاری)
ان آیات و احادیث کی روشنی میں ذرا اپنی سوسائٹی پر نگاہ ڈالیے تو معلوم ہوگاکہ آج بدنگاہی ایک عام مرض بن چکی ہے اور ہمارا ہر چھوٹا بڑا اس بیماری میں مبتلا نظر آتاہے۔ پھر ہماری خواتین نے جو رنگ ڈھنگ، فیشن اور لباس اختیار کررکھے ہیں انہوں نے بھی اس مرض کو پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کسی کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ مسلمانوں کا معاشرہ ہے جہاں ان چیزوں کو رواج دینا ایک شیطانی اور ناپسندیدہ عمل ہے ۔ آج لوگ اللہ کے خوف، آخرت کی جوابدہی اور اسلام کی تعلیمات سے اتنے دور جاپڑے کہ انہیں گناہ گناہ ہی محسوس نہیں ہوتا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم بد نگاہی اور بے حیائی کے جس کلچر کے عادی ہو چلے ہیں وہ تباہی اور بربادی کا کلچر ہے۔ آنکھ کی کھڑکی کھلی رہے تو بے شمار وسوسے پیدا ہوتے ہیں، دل صنفِ مخالف کی جانب راغب ہوتا اور دیگر اعضا کو زنا کی جانب مجبور کرتا ہے۔ پھر قدم گناہ کی راہ پر اٹھتے، اورزبان گناہ کا کلام کرتی ہے ۔
پھر موبائل فون پر راتوں میں چوری چھپے باتیں ہوتی ہیں، انٹرنیٹ پر ای میل اور تصاویر کا تبادلہ ہوتاہے اور تنہائی میسر آنے پر وہ گناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جس کا عذاب قیامت میں دوگنا ہے۔
اس ضمن میں ہر ایک نے اپنا رول ادا کرنا ہے۔ ہماری خواتین کو اپنے طرزِ عمل کا جائزہ لینا چاہیے اور زینت و آرائش کے نام پر وہ جس بے اعتدالی کا شکار ہوگئیں ہیں، اس سے بچیں اور توبہ کریں۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔