محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
جب سے ہندوستان میں زعفرانی پارٹی اور ان کے ہمنوا پارٹیوں کو عروج و اقتدار حاصل ہوا ہے، اس وقت سے ہندوستان میں مسلمان اور اقلیتی طبقہ کے لوگ اپنے کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، حالیہ چند سالوں میں ملک کی جو خطرناک صورت حال بنی ہوئی ہے، وہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔۔۔۔۔
ملک کو ایک خاص نظریہ کا پابند بنانے کی کوشش جاری ہے، جمہوری ڈھانچے کو کمزور کرنے کی بھی جدوجہد جاری ہے۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت کوئی بھی سیاسی پارٹی قابل اعتبار نہیں ہے، سب کے اپنے اپنے مفادات اور تحفظات ہیں، کسی بھی سیاسی پارٹی کے قول و عمل پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ہے، سب مفاد کے غلام اور ہوس کے پجاری ہیں، اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہیں۔۔۔
اس وقت بہار کا موجودہ ریاستی چناوُ اہل بہار کے لیے ایک چیلنج ہے، ان کے سیاسی شعور کا امتحان ہے، اس ملک میں ان کے وجود و بقا کے لیے ایک جنگ ہے، اس وقت ہماری تھوڑی سی لا پرواہی اور غفلت ہمیں حاشیہ پر پہنچا دے گی اور اس ملک میں آزادی کے ساتھ رہنا ہمارے لیے مشکل ہو جائے گا۔۔۔۔
اس لیے مسلمان ووٹ کی اہمیت کو سمجھیں، اس کا صحیح استعمال کریں اور اس نکتہ پر نظر رکھیں کہ جب دو مشکل میں سے ایک کو اختیار کرنا مجبوری ہو تو اھون البلیتن کے قاعدہ کے تحت اس میں سے کم تر کو اختیار کرنا ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ نقصان کم سے کم ہو۔۔
کل بہار چناوُ کا دوسرا مرحلہ ہے ، جس میں تقریبا ۹۴ / سیٹوں پر انتخاب ہونا ہے، ایسے میں ہم کیا حکمت عملی اختیار کریں کہ ہمارا ووٹ ضائع نہ ہو اور زعفرانی پارٹیاں اقتدار کے قریب نہ پہنچ سکیں، اس سلسلے میں ہم چند باتیں قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان میں مسلم قیادت اور مسلمانوں کی علحیدہ پارٹی کے قیام کا تجربہ بالکلیہ نہیں کیا گیا ، اسکے لئے کوشیش کی گئیں، لیکن اندازہ یہ ہوا اور تجربہ یہ سامنے آیا کہ ملک میں آبادی کی جو صورت حال ہے، اس میں خالص مسلم پارٹی کی بنیاد پر سیاست کرنا کسی طرح بہتر نہیں ہے، یہاں جمہوری طاقتوں اور پارٹیوں سے مل کر اقتدار میں شراکت یہ زیادہ بہتر ہوگا۔۔۔
موجودہ وقت میں چند ریاستوں اور علاقوں کو چھوڑ کر تنہا مسلم پارٹی کی سیاست بہتر نہیں ہے، جو لوگ عجلت اور جذبات میں آکر فوری مسلم پارٹی اور قیادت کی بات کرتے ہیں اور جیت کے امکانات لگائے بیٹھے ہیں وہ بھول اور اٹکل میں ہیں۔
اس وقت جس حلقہ میں مسلم پارٹی کا امید وار ہے، یا آزاد مسلم امید وار ہے، لیکن اس کی جیت کے امکانات نہیں ہیں، وہاں مسلمانوں کا مسلم امید وار کو ووٹ کرنا اپنے ووٹ کو ضائع کرنا ہے، اس لیے وہاں سیکولر محاذ کو ووٹ کرنا چاہیے۔
اگر کسی حلقہ میں مسلمان پچاس فیصد یا اس سے زیادہ ہیں اور وہاں کئی مسلمان امید وار ہیں تو بہتر ہوگا کہ وہاں اس مسلم امید وار کو ووٹ دیا جائے، جس کے اندر جرات و ہمت ہو وہ ایوان اور اسمبلی میں پوری طاقت کے ساتھ ملت کی ترجمانی کرسکے۔۔ بہر حال آزاد اور مسلم پارٹی کا جیتا امیدوار جتنی طاقت کے ساتھ اپنی بات رکھ سکتا ہے وہ کسی پارٹی کا جیتا امید وار نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ بہت سی سیکولر پارٹیاں بھی اپنے نمائندے کو کھل کر بولنے کی اجازت نہیں دیتیں ۔
جس پارٹی کو ووٹ دینے کی وجہ سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوتی ہو ، مسلمانوں میں اتحاد کے بجائے انتشار ہوتا ہو،اور اس تقسیم اور انتشار سے زعفرانی پارٹی کی جیت یقینی ہوجاتی ہو اس پارٹی کو ووٹ دینے کی غلطی مسلمان ہرگز نہ کریں۔ ماضی میں مہاراشٹر وغیرہ میں مسلمانوں نے یہ غلطی کر چکے ہیں۔ اب دوبارہ ایسی غلطی نہ کریں۔
اس وقت اصلا دو ہی محاذ اور گٹبندھن ہیں، جن میں اصل مقابلہ ہے،تیسرا اور چوتھا محاذ صرف چھلاوا ہے، وہ اسی زعفرانی پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے ہے،جس نے اس کو مصلحتاً الگ سے لڑایا ہے۔۔ تاکہ وہ بعد میں اس سے مل جائے اور اس کو مضبوط کرے۔۔۔۔ اس لیے تیسرے اور چوتھے گٹبندھن کو ووٹ کرنا بیوقوفی اور نادانی ہے ۔
مسلمان خاموش طریقہ سے اپنے ووٹ کو متحد کریں، توریہ اور اشارہ کنایہ والی زبان بھی مصلحتاً استعمال کریں، جس کی ایک گنا اجازت ہے کیونکہ موجودہ سیاست ایک جنگ ہے اور جنگ میں تدبیر اور توریہ جائز ہے ، بھیڑ ہر جگہ لگائیں لیکن ووٹ سوچ سمجھ کر دیں۔۔
علاقائی پارٹی کے مقابلے میں مرکزی اور نیشنل پارٹی کو زیادہ اہمیت دیں، کیونکہ آر ایس ایس اور بھاجپا کانگریس مکت بھارت بنانا چاہتی ہے، اس کو مرکزی پارٹیوں کو بے دخل کرنا مشکل لگ رہا ہے، لیکن علاقائی پارٹیوں کو کمزور اور بے اثر کرنا اس کے لیے آسان ہے۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ صوبائی پارٹیوں کو اسمبلی میں زیادہ ووٹ کریں اور مرکز میں نیشنل پارٹیوں کو زیادہ مضبوط کریں۔۔ اگر دونوں کا گٹبندھن ہے تو پھر دونوں کو مضبوط کریں۔
نوٹ باقی کل کے پیغام میں ملاحظہ کریں۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔