*????سوال وجواب????*
????مسئلہ نمبر 1249????
(کتاب الزکاہ، باب الاداء)
*بغیر بتائے دوسرے کی طرف سے زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم*
*سوال:* زید نے اپنے دوست کی طرف سے اس کے مال کی زکوۃ اداکر دی بعد میں اطلاع دی، تو زکوۃ ادا ہو ئی یا نہیں؟ جواب سے نوازیں۔ (محمد بلال، بجنور)
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*الجواب و باللہ التوفیق*
دوسرے کی جانب سے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے حکم سے زکوٰۃ ادا کی جائے یا اس کی اجازت سے، اگر اجازت کے بغیر ادا کردی گئی اور بعد میں بتایا گیا اور اس نے اجازت دی تو اس کی زکوٰۃ نہیں مانی جائے گی، تاہم دی ہوئی زکوٰۃ دینے والا اپنی جانب سے بطورِ زکوٰۃ منہا کر سکتا ہے کیونکہ زکوٰۃ سال پورا ہونے سے پہلے بھی دی جاسکتی ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
*????والدليل على ما قلنا????
و لو أدى زكوة ﻏﻴﺮﻩ ﺑﻐﻴﺮ ﺃﻣﺮﻩ ﻓﺒﻠﻐﻪ ﻓﺄﺟﺎﺯ ﻟﻢ ﻳﺠﺰ؛ ﻷﻧﻬﺎ ﻭﺟﺪﺕ ﻧﻔﺎﺫا ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺘﺼﺪﻕ؛ ﻷﻧﻬﺎ ﻣﻠﻜﻪ، ﻭﻟﻢ ﻳﺼﺮ ﻧﺎﺋﺒﺎ ﻋﻦ ﻏﻴﺮﻩ ﻓﻨﻔﺬﺕ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﻟﻮ ﺗﺼﺪﻕ ﻋﻨﻪ ﺑﺄﻣﺮﻩ ﺟﺎﺯ ﻭﻳﺮﺟﻊ ﺑﻤﺎ ﺩﻓﻊ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ، ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﻳﺸﺘﺮﻁ اﻟﺮﺟﻮﻉ ﻛﺎﻷﻣﺮ ﺑﻘﻀﺎء اﻟﺪﻳﻦ ﻭﻋﻨﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻻ ﺭﺟﻮﻉ ﻟﻪ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﺸﺮﻁ. ( البحر الرائق ج:2، ص:227،ط: دارالکتاب الاسلامی بیروت )
ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺘﺘﺎﺭﺧﺎﻧﻴﺔ: ﺇﻻ ﺇﺫا ﻭﺟﺪ اﻹﺫﻥ ﺃﻭ ﺃﺟﺎﺯ اﻟﻤﺎﻟﻜﺎﻥ اﻩـ ﺃﻱ ﺃﺟﺎﺯ ﻗﺒﻞ اﻟﺪﻓﻊ ﺇﻟﻰ اﻟﻔﻘﻴﺮ، ﻟﻤﺎ ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ: ﻟﻮ ﺃﺩﻯ ﺯﻛﺎﺓ ﻏﻴﺮﻩ ﺑﻐﻴﺮ ﺃﻣﺮﻩ ﻓﺒﻠﻐﻪ ﻓﺄﺟﺎﺯ ﻟﻢ ﻳﺠﺰ ﻷﻧﻬﺎ ﻭﺟﺪﺕ ﻧﻔﺎﺫا ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺘﺼﺪﻕ ﻷﻧﻬﺎ ﻣﻠﻜﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﺼﺮ ﺗﺎﺋﺒﺎ ﻋﻦ ﻏﻴﺮﻩ ﻓﻨﻔﺬﺕ ﻋﻠﻴﻪ اﻩـ ﻟﻜﻦ ﻗﺪ ﻳﻘﺎﻝ: ﺗﺠﺰﻱ ﻋﻦ اﻵﻣﺮ ﻣﻄﻠﻘﺎ ﻟﺒﻘﺎء اﻹﺫﻥ ﺑاﻟﺪﻓﻊ. ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ: ﻭﻟﻮ ﺗﺼﺪﻕ ﻋﻨﻪ ﺑﺄﻣﺮﻩ ﺟﺎﺯ ﻭﻳﺮﺟﻊ ﺑﻤﺎ ﺩﻓﻊ ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ. ﻭﻋﻨﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﻻ ﻳﺮﺟﻊ ﺇﻻ ﺑﺸﺮﻁ اﻟﺮﺟﻮﻉ۔ (رد المحتار على الدر المختار ج:2، ص: 269، ط: دارالفکر بیروت۔)
كتبه العبد محمد زبير الندوى
دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا
مورخہ 4/1/1442
رابطہ 9029189288
*دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔