*????بغیر شعلوں کے کھیل کھیلے نہ راہ دے گا کبھی زمانہ????*
*از قلم محمد زبیر ندوی* دار الافتاء مدرسہ ہدایت العلوم بہرائچ یوپی انڈیا رابطہ 9029189288
ہمارا ملک ہندوستان جو کسی زمانے میں سونے کی چڑیا تھا، جس کی رنگا رنگی اور مذہبی رعنائی ایک مثال تھی، جس کی گنگا جمنی تہذیب و ثقافت ایک محاورہ بن چکا تھا، اختلافِ مذاہب و ثقافت کے ساتھ اتفاقِ انسانیت جس کا عمومی شعار تھا، ترنگے کی سہ رنگی رنگ و نسل میں اختلاف؛ مگر ایک ملک میں اتحاد و اتفاق کا نشان امتیاز تھا، لیکن افسوس کہ آہستہ آہستہ بھگوا رنگ و نسل کے مسموم اثرات کے زیر اثر ختم ہوتا رہا اور اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ
وفا کیسی؟ کہاں کا عشق! جب سر پھوڑنا ٹھہرا تو پھر اے سنگ دل، تیرا ہی سنگ آستاں کیوں ہو؟
حضرات قارئین باتمکین! اب وہ دور شروع ہوچکا ہے کہ اس سے پہلے کہ ملک میں ظلم و ستم کی آگ ہمیں خاکستر کر دے آزادی کی آگ ہر سینے میں لگا دی جائے، بچہ بچہ کو میدان کربلا کی داستان یاد کرا دی جایے، جوانوں میں شوق شہادت پیدا کردیا جائے، ارمانوں کا خون ہونے سے پہلے ملک عزیز کی خاطر خون کا آخری قطرہ تک بہانے کی قسم کھالی جایے اور جگر مرادآبادی کا یہ شعر خانہ ذہن و دماغ میں بسا لیا جائے کہ:
یہ خون جو ہے مظلوموں کا ضائع نہ جائے گا لیکن کتنے وہ مبارک قطرے ہیں جو صرف بہاراں ہوتے ہیں
جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر جب وقت شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں
علامہ اقبال کا یہ پیامی شعر بھی گرہ کرلیں کہ:
شھادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
قارئین کرام: ہندوستان ہمارا ملک ہے ہم اس کے اصلی باشندے ہیں، ہمارے آباء و اجداد نے اپنے خون جگر سے اس چمن کی آبیاری کی ہے، ہمارے اسلاف یہاں آباد ہونے آئے تھے، اس کی رونق کو بڑھانے آیے تھے، انہوں ن لال قلعہ جیسا بے مثال تحفہ ہندوستان کو دیا، جامع مسجد کی سوغات دی، تاج محل جیسی یادگار دی، قطب مینار جیسا یادگاری تمغہ دیا ہے، اس سرزمین کو اگر عزت حاصل ہوئی تو اسلام اور مسلمانوں کی وجہ سے، خواجہ اجمیری نے ہندوستان کا نام سارے عالم میں روشن کیا، خواجہ غریب نواز صرف غریب نواز نہیں بلکہ ہندوستان نواز تھے، خواجہ نظام الدین اولیا نے اس ملک کو شہرت کے اعلی مقام پر پہونچایا، کیا ہمارے یہ اسلاف ہماری تاریخ کے لیے کافی نہیں ہیں؟ اگر حکومت نہیں مانتی ہے تو نہ مانے لیکن یہ یاد رکھے کہ ہندوستان کا بچہ بچہ ان کا عاشق ہے اور ان کی خاطر اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کو تیار ہے۔ مذکورہ بالا یادگاریں اور بزرگ ہستیاں آج بھی بزبان حال گویا ہیں اور حکومت کو للکار کر کہہ رہی ہیں کہ:
مرے عشق ہی سے پہنچی ترے حسن کو یہ شہرت
ترا ذکر ہی کہاں تھا مری داستاں سے پہلے
حضرات قارئین کرام! تاریخ کبھی بنتی نہیں ہے بنائی جاتی ہے، وقت بدلتا نہیں ہے بدلنا پڑتا ہے، زمانہ راہ دیتا نہیں ہے ڈٹ کر لینا پڑتا ہے، انقلاب آتا نہیں ہے، لانا پڑتا ہے، آزادی ملتی نہیں ہے حاصل کرنی پڑتی ہے، ظلم رکتا نہیں ہے روکنا پڑتا ہے، اور ان سب کے لئے سد سکندری بننا پڑتا ہے، اس کے لیے شعلوں کا کھیل کھیلنا ہوتا ہے، آگ کے دریاؤں کو پار کرنا ہوتا ہے، عزم و ہمت کے آہنی پنجوں سے طاغوتی پنجوں کو مروڑنا اور توڑنا پڑتا ہے، اس میں حرب و ضرب کی نوبت بھی آتی ہے اور نسلوں کا خون بھی بہتا ہے، اس میں بچے یتیم خواتین بیوہ اورر مرد معذور بھی ہوتے ہیں، دار و رسن کی نوبت بھی آتی ہے اور آہ و فغاں کی نوائین بھی، لیکن جب یہ سب ہوتا ہے تو پھر حالات کا پہیا گھومتا اور انقلاب زندہ باد ہوتا ہے پھر اس طاقت کو نہ سیلابِ بلا خیز بہا کر لے جا سکتا ہے اور نہ ہی طوفانِ تند و تیز اس کی رفتار کو مدھم کر سکتا ہے، چنانچہ موجودہ حالات میں ضرورت ہے کہ یہی جذبۂ صادق سب کے دل میں رچ بس جائے اور ملک کو بچانے کی فکر دامن گیر ہوجائے، کیا یہ سستا سودا نہیں ہے کہ ہماری جان چلی جایے مگر کروڑوں کی جان مال اور عزت و آبرو محفوظ ہوجائے؟ کیا یہ آسان نہیں ہے کہ دس گھر اجڑ جائیں لیکن کروڑوں گھر آباد ہوجائیں؟ یقیناً یہ آسان اور سستا سودا ہے، تو پھر ہندوستان کو غلامی کی تاریکی سے نکالنے کیلئے سب کو میدان میں آجانا چاہیے کہ یہی ایک راستہ ہے بچنے اور بچانے کا۔
*بچھ گئے کوچۂ یار میں کانٹے* *کس کو شکوہ برہنہ پائی ہے*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔