???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1112)
*بنیادی ہدایت نامہ والی آیت کریمہ -*
*قرآن مجید کی بعض آیتوں کو بنیادی ہدایت نامہ کہا جاسکتا ہے، جو اپنی مرکزیت کے اعتبار پورے معاشرہ کی اچھائیوں، برائیوں اور ان میں پیدا ہونے والی تمام تر اندرونی و خارجی دواعی کا احاطہ کر لیتی ہیں، مگر یہ بھی درست بات ہے کہ ان آیات کو اکثر خاص مفاہیم کو جماعتی، ذاتی اور دیگر مفادات تک محدود کردیا جاتا ہے، ان میں سے ایک اہم آیت یہ بھی ہے:اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ ۚ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ - (نحل:٩٠) "بے شک اللہ عدل کا، احسان کا اور قرابت داروں کے ساتھ مالی اعانت کا حکم دیتے ہیں، بے حیائی، بری بات اورظلم کرنے سے منع فرماتے ہیں، تم کو نصیحت فرماتے ہیں؛ تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔" یہ آیت پوری انسانی برادری کی ہدایت اور ان کی صلاح کیلئے کافی ہے، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس آفاقی کلام کو وہی آفاقیت دی جائے، طبقہ و جماعت اور متعینہ مفہوم سے اٹھ کر وسیع نظری اور کشادہ قلبی کے ساتھ اس کی تفسیر بیان کی جائے، اس آیت کے متعلق حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے مروی یہ روایت پڑھئے کہ رشد و ہدایت اور خیر و بھلائی پانے کیلئے یہ سب سے جامع ترین آیت ہے(مفاتیح الغیب: ۹؍۶۱۵) اس میں اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کا حکم دیا ہے: عدل، احسان اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک، عربی زبان میں عدل کے معنی ہرچیز کو اپنی جگہ پر رکھنے کے ہیں، گویا عدل یہ ہے کہ جس کا جو حق ہے، وہ اس کو ادا کردیا جائے، اس میں کمی نہ کی جائے، اس کے مقابلہ میں عربی زبان میں "ظلم" کا لفظ آتا ہے، جس کا معنی کسی چیز کو اپنے صحیح موقع و محل پرنہ رکھنے کے ہیں؛ لہٰذا صرف اللہ کے سامنے سرجھکانا عدل ہے، کیوں کہ عبادت کا صحیح محل اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو معبود ماننا ظلم ہے، خدا کے سوا کوئی اس بات کا محل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے، اسی طرح شوہر و بیوی، والدین و اولاد، قرابت دار اور پڑوسی، سماج کے ضرورت مند لوگ، اگر ان کو ان کا حق دے دیا جائے تو یہ عدل ہوگا، اگر انسان دوسرے کا حق لے لے یا اس کو اس کے حق سے کم دینا چاہے تو یہ ظلم ہے، اس طرح غور کریں تو انسان کی پوری زندگی عدل اور ظلم کے درمیان ہے، اگر وہ قرآن و حدیث کی ہدایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کے اور اللہ کے دوسرے بندوں کے حقوق ادا کررہا ہے تو وہ عدل پر قائم ہے اوراگر حق تلفی کا مرتکب ہورہا ہے تو وہ ظلم کے راستے پر ہے.*
*تیسرا طریقہ وہ ہے جسے اس آیت میں "احسان" کہا گیا ہے، عدل ان چیزوں پر عمل کرنا ہے جو انسان پر واجب ہے اور احسان اس سے آگے بڑھ کر مستحب اور مستحسن طریقہ کو اختیار کرنا ہے، جیساکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "العدل الانصاف والاحسان التفضل" (تفسیر قرطبی : ۱۰؍۱۶۱)؛ لہٰذ اپنا حصہ حق سے کم لینا اوردوسرے کو اس کے حصہ سے بڑھ کر دینا " احسان" ہے، کسی عبادت کو اس کی ظاہری کیفیت کے ساتھ ادا کردینا، جیسے نماز میں قیام، رُکوع، سجدہ وغیرہ عدل ہے کہ اس سے نماز درست ہوجاتی ہے اور نمازمیں خشوع و خضوع کو قائم رکھنا، اس بات کے استحضار کو برقرار رکھنا کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ رہے ہیں "احسان" ہے ، پس احسان کا تعلق بھی زندگی کے تمام مسائل سے ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے ہر چیز میں احسان کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ اگر کوئی قتل کا مستحق ہو اور اسے قتل کرو تو وہ بھی "احسان" کے ساتھ یعنی بہتر طریقہ پر کہ اسے تکلیف پہنچا کر قتل نہ کیا جائے، اور اگر کسی جانور کو ذبح کرنا ہوتو وہ بھی احسان کے ساتھ یعنی اس طورپر کہ کم سے کم تکلیف پہنچے،"ان اللّٰه کتب الاحسان علی کل شئ الخ" ( مسلم، کتاب الصید والدبائح، باب الامر باحسان الذبح والقتل: ۵۱۶۷) انسان کو اختلاف کی نوبت زیادہ تر قرابت داروں کے ساتھ آتی ہے اور اکثر ان ہی کے ساتھ مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے؛ اس لئے خاص طورپر قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا --- اس آیت میں تین باتوں سے منع فرمایا گیا ہے، ان تینوں کا ماحصل اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے؛ لیکن نوعیت کا تھوڑاسا فرق ملحوظ ہے، فحشاء کے معنی ایسے گناہوں کے ہیں، جن میں بے حیائی کا پہلو بھی ہو، جیسے: زنا، خواہ آپسی رضامندی سے ہو یا جبر و اکراہ کے ساتھ ہم جنسی، عریانیت، فحش لٹریچر، بے حیائی پر مبنی فلمیں اور اشتہار، ڈرامے اور غزلیں، مخرب اخلاق گانے وغیرہ، سب اس میں شامل ہیں --- "بَغِی" سے مراد ظلم ، دوسرے کے ساتھ زیادتی اور تکبر وغیرہ ہے یعنی وہ گناہ جن کا تعلق دوسرے انسانوں کے حقوق سے ہے --- اور "مُنْکَر" میں وہ تمام باتیں شامل ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے، (تفسیر قرطبی: ۱۰؍۱۶۷) یہ آیت گویا ایک مسلمان کی زندگی کے لئے بنیادی ہدایت نامہ ہے، جس میں تمام نیکیوں اور گناہوں کی طرف اشارہ فرمادیا گیا ہے.*(دیکھئے:آسان تفسير قرآن مجید)
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
29/11/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔