کیا زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے مشکل حالات سے گزرنا ضروری ہے؟
ایک نو عمر لڑکے نے جھنجھلاتے ہوئے سوال کیا۔ ایک سائنسدان اپنی تجربہ گاہ میں تتلی کے لاروے پر تجربات کر رہا تھا ۔لاروا تتلی بننے کے آخری مراحل میں تھا۔ سائنسدان نے دیکھا کہ لاروے میں ایک سوراخ بن گیا ہے۔ یہ خول اتنا چھوٹا تھا کہ تتلی کیلئے اس سے باہر نکلنا ناممکن تھا لیکن اس کے باوجود وہ بھرپور زور لگا کر اس سوراخ سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سائنسدان نے سوچا کیوں نہ میں اس سوراخ کو بڑا کردوں تاکہ تتلی بآسانی باہر آ سکے۔ اس نے ایک آلہ کی مدد سے لاروے کے خول میں اتنا بڑا سوراخ کر دیا کہ تتلی آسانی سے باہر آ سکتی تھی اور وہی ہوا۔ تتلی ذرا سی دیر میں بغیر کوشش کے لاروے سے باہر آ گئی۔ مگر سائنسدان اس وقت شدید حیران رہ گیا جب اس نے دیکھا کہ تتلی باوجود کوشش کے پرواز نہیں کرپا رہی ۔ حتیٰ کہ اس کے پر بھی پوری طرح نہیں کھل پا رہے۔ سائنسدان اس تتلی کو اپنے سینئر سائنسدان کے پاس لے گیااور سارا ماجرا بیان کیا، اس نے سرد آہ بھری اور تاسف سے بولا۔ تم نے اپنی بے وقوفی کی وجہ سے تتلی کو ساری زندگی کیلئے معذور بنا دیا۔ جب تتلی لاروے سے باہر آنے کیلئے زور لگا رہی ہوتی ہے تو اس وقت مفید مادے اس کے پروں میں سرائیت کر جاتے ہیں انہی مادوں کی وجہ سے تتلی کے پروں میں جان آتی ہے اور وہ اڑنے کے قابل ہو جاتی ہے، تم نے اس کی مدد تو کر دی ،مگر ان مفید مادوں سے اسے محروم کر دیا۔
مشکل حالات ہماری صلاحیتوں اور قابلیت کو مہمیز کرتے ہیں۔ ہماری شخصیت کے نوکدار کونوں کو گول کرتے ہیں، ہمیں نامساعد حالات میں خوبی کے ساتھ پرواز کرنا سکھاتے ہیں
بطور والدین کبھی کبھی ہم اپنے بچوں کو مشکل حالات سے بچانے کی بہت زیادہ کوشش کرتے ہیں اور اس کے لیےبہت کچھ کرتے ہیں زندگی کی مشکلات اور مایوس کن حالات سے بچاتے ہیں چاہتے ہیں کہ ہم جن ۔مشکلات سے گزرے ہیں وہ ان سے نہ گزریں
ہارورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ جن بچوں کو مشکل حالات سے بچایا جاتا ہے بہت زیادہ آسانیاں دی جاتی ہیں ان کو زندگی میں بے پناہ دشواریوں کا سامنا رہتا ہے ان میں چیلنج حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے وہ زیادہ۔کوشش سے کم نتائج حاصل کر پاتے ہیں
ہم بچوں کو بہت زیادہ مدد کر کے ۔۔۔ اپنے عمل سے یا دوسرے لفظوں میں غیر محسوس انداز سے یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ تم میں صلاحیت نہیں ہے تو وہ پیغام بہت خوبی سے بچے تک پہنچ جاتا ہے اور وہ ذہن میں بٹھا لیتا ہے کہ اس میں متعلقہ کام کرنے کی صلاحیت نہیں ہے
ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بچے کو راستہ پر چلنے کے لیے تیار کریں ۔ نہ کہ راستے کو بچے کے لیے تیار کیا جائے
بچے کو سیکھایا جائے کہ 1- معاشرتی اور مذہبی اقدار کے اندر رہ کر، 2-دستیاب وسائل کے ساتھ مشکلات اور مسائل کو کیسے حل کرنا ہے
ناں کہ ہر وقت آئیڈیل حالات اورمعاشرہ کی خواہش کرتے رہنا اور دستیاب وسائل سے مسائل کو حل کرنے کی بجائے وسائل کی کمی کا رونا رونا اوربےبچوں کو مشکلب عملی کا شکار رہنا
بچوں کو مشکلات میں ڈالیں ان کو مستقبل میں ممکنہ مشکلات کے لیے تیار کریں اور پریکٹس کروائیں محمد فاروق خان نانیگاؤی *ادارہ دعوۃالحق اورنگ آباد مہاراشٹرانڈیا*
ناقل عاجز: محمد زکریّا اچلپوری الحسینی
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔