بھارت قانون و انتظام سے جوجھتا ملک

✍ *محمد صابر حسین ندوی* *بھارت صرف نام کیلئے ایک جمہوری ملک رہ گیا ہے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ یہاں قانون و انتظامیہ کا کوئی پتہ نہیں ہے، ہندوستان ٢٠٣٠ تک دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک بن جائے گا، اندازہ یہ بھی ہے کہ یہاں کی اکانامی پانچ ٹرلین ہوجائے گی، بلیٹ ٹرین کی رفتار بھی پٹری پکڑ لے، سب کچھ الف لیلا کا قصہ لگتا ہے؛ لیکن حقیقت بن جائے تو انکار نہیں؛ مگر اس سے بڑی بات یہ ہے یہاں پر قانون کا کوئی زور نہیں ہے، انڈیا بڑی تیزی کے ساتھ ایک جنگل راج کی طرف بڑھتا جارہا ہے، سپریم کورٹ پر عوام کو بھروسہ نہیں ہے، وہاں سے مستقبل ایسے فیصلے آرہے ہیں جن سے انصاف کا گلا گھٹتا جارہا ہے، مقننہ خود ایک خاص رنگ میں رنگ چکی ہے، وزیر داخلہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے کا چیلینج کرتے ہیں، انہیں کھدیڑ دینے اور کرنٹ کا جھٹکا لگا دینے کی بات بولتے ہیں، اگر مسلمان کہیں پر جمع ہوجائے تو انہیں دہشت گرد بول دیا جاتا ہے، وہ اپنا حق مانگیں تو وہ غدا وطن کہلاتے ہیں، جب وہی کام اگر ہندو کمیونٹی کرتی ہے تو وہ اعزاز پاتے ہیں، ان کے ساتھ بڑی نرمی کا برتاؤ ہوتا ہے، ان کا تشدد بھی سرآنکھوں پر رکھا جاتا ہے.* *اس کی ایک تصویر تو یہ ہے کہ جو کوئی ان کی فکر سے موافقت رکھتا ہے، انہیں دیس کا سب سے بڑا خادم ماناجاتا ہے، وہ سب عیش میں ہیں، ان کیلئے قانون برائے نام ہے، کنال ورما ایک اسٹینڈ آپ کامیڈین ہیں، ان کے وفادار میڈیا ورکر سے ایک فلائٹ میں بھڑ گئے، انہیں کچھ بد تمیزی سے مخاطب کردیا اور سچائی کا آیینہ دکھلایا، دیکھتے ہی دیکھتے ان پر ساری فلائت سروسیز بند کردی گئیں، چھ مہینہ کیلئے پابندی عائد کردی گئی، حالانکہ نہ تو پائلٹ نے کوئی شکایت کی تھی اور ناہی ان وفادار اعظم أرنب گوسوامی نے کچھ کہا تھا، لیکن قانون ان کے گھر کی لونڈی ہے جیسے چاہیں، جس کے ساتھ چاہیں استعمال کرسکتے ہیں، تو وہیں کچھ وقت پہلے پرگیہ ٹھاکر نے ایک فلائٹ موخر کروادی تھی، عوام کو آدھا گھنٹہ انتظار کروایا تھا، اور ان سے بدتمیزی بھی کی تھی؛ لیکن ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوئی، ایک اسکول کے متعلق یہ خبر گردش کررہی ہے کہ وہاں سی اے اے کے خلاف چھوٹے چھوٹے طلباء نے ایک ڈرامہ کیا تھا، معلوم ہوا کہ ان پر دیس مخالف کا کیس درج کرلیا گیا، اور ان بچوں سے پوچھ تاتھ کی گئی، تو وہیں ایک اسکول میں بابری مسجد کو کیسے ڈھایا گیا، اس بارے میں ڈرامہ کر کے دکھایا گیا، اور اس کام کو صحیح ٹھکرانے کی کوشش کی گئی تھی، چونکہ یہ اسکول زعفرانی رنگ سے متعلق تھا تو محض ہلکا سا کیس لگا کر بات ختم کردی گئی.* *کس کس پہلو پر بات کی جائے، خواتین کیلئے یہ ملک سب سے خطرناک بن چکا ہے، خواتین کی عصمت ریزی کے رکارڈ بڑھتے ہی جارہے ہیں، اور سرکار ناکام ہے، قانون فیل ہے، بلکہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اکثر و بیشتر عصمت دری کرنے والے زعفرانی رنگ سے تعلق رکھتے ہیں، وہ بابا ہیں، جوگی ہیں، اور اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ قانون بھی ان کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے، کچھ دن پہلے کی بات ہے چنمیا نند کو ضمانت دے دی گئی ہے، وہ ایک وکیل خاتون کے ساتھ زیادتی کی کیس میں ملوث ہیں، یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہاں کی پولس لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی بلکہ سیاسی پٹھو بن کر اسی کے سایہ کی حفاظت کرتی ہے، یہاں کی راجدھانی کا حال اتنا بدتر ہے کہ کیا بیان کیا جائے؟ وہاں پر تعلیمی انسٹیٹیوٹ محفوظ نہیں ہیں، بچوں کو دن ہو یا رات پولس ان کے اپارٹمنٹ میں گھس کر مارتی ہے، وہاں پر سیاسی ہلچل ہو تو اسے ملک سے غداری قرار دیتی ہے، خاص طور سے اقلیت اور ان میں بھی مسلمان ہوں تو وے سب سے زیادہ معتوب ٹھہرتے ہیں.* *پر امن احتجاج قانونی حق ہے، لیکن سی اے اے کے خلاف ہورہے احتجاجی مظاہروں کو تھپ کرنے کی مکمل کوشش کی جاتی ہے، اس کیلئے فاشسٹ طاقتیں تشدد پر اتر چکی ہیں اور قانون نگاہیں بند کئے ہوا ہے، شاہین باغ میں موجود خواتین کے درمیان ایک نے گولی چلادی، اور جامعہ ملیہ کے پاس یہ حادثہ دو مرتبہ ہوچکا ہے، لیکن قانونی پکڑ اتنی نہیں کہ ان فتنہ پروروں کو کوئی روک سکے، بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب ان کی نگرانی اور ماتحتی میں ہوتا ہے، آج پورا ملک قانون کی بے کاری کا رونا رو رہا ہے، ایک شرجیل امام کے بیان پر پولس اتنی چوکس ہوجاتی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں اسے ڈھونڈ لیا جاتا ہے؛ لیکن نجیب ایک طالب علم یونیورسٹی سے غائب ہوجاتا ہے، سالوں ہوگئے، مگر کوئی خبر نہیں ہے، ڈاکٹر کفیل احمد کو سی اے اے مخالف تقریر کی وجہ سے فورا گرفتار کر لیا جاتا ہے، تو وہیں انوراگ ٹھاکر کھلے عام گولی مارنے کی بات کرتے ہیں تو کچھ نہیں ہوتا____ واقعی قانون اب صرف کتاب کی زینت ہے، ورنہ ہندوستان تو سیاسی طاقت پر منحصر ہے، جس کے پاس وہ طاقت ہے وہی قانون ہے، وہی دستور ہے.* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 06/02/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔