*لاک ڈاؤن کے بعد بھارت کی تصویر کیا ہوگی، اسے پھر سے کیسے زندگی کی پٹری پر لایا جائے گا، معاشی حالت کی درستگی اور کمپنیوں، فیکٹریوں کی بحالی کے ساتھ مزدوروں اور کسانوں کو کیسے راحت پہنچائی جائے گی، انہیں زندگی سے جوڑنے اور روزی روٹی کمانے کا مکلف کیسے بنایا جائے گا؟ یہ سب اہم سوالات ہیں، لاک ڈاؤن کے بعد ملک کا ہر ایک شعبہ ایک نئے امتحان سے گزرے گا، گویا ایک نئے بھارت کو بنانے اور گڑھنے کی ضرورت ہوگی، اس کی پرانی بنیادوں پر پھر سے سوچنا ہوگا، بہت سی جدید ادواد کی شروعات ہوگی، نئے منصوبے اور نئے عزائم پالنے ہوں گے، بالخصوص معاشی کیفیت مندی بلکہ مہامندی کی طرف دھڑلے سے دوڑ رہی ہے، اس کی رفتار پر روک لگانا اور یہ یقینی بنانا کہ ملک کی اکانامی نہ ڈوبے بہت زیادہ ضروری ہوجائے گا، ورنہ انسانی زندگی دوبھر ہوجائے گی، مہنگائی اور جرائم کی شرح بڑھ جائے گی، لوٹ مار بھی مچ جائے گی، جو ایک نوالے کیلئے راستے پر آجائیں گے، اگر ان کا صبر ٹوٹ گیا تو ایک ایسا سیلاب آجائے گا جو اپنے ساتھ ملک کا چین و امن بہا لے جائے گا، افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک کے تمام فیصلوں سے یہی لگتا ہے کہ سرکار اندھیرے میں تیر مار رہی ہے، اسے اندازہ ہی نہیں ہے کہ کیا ہونے والا ہے اور پچھلے ایام میں جو کچھ ہوا، وہ اس سے بے خبر تھے.*
*لاک ڈاؤن کو مہاماری کا حل سمجھنے کی غلطی کرنے والی سرکار کو یہ سمجھ نہیں آتا ہے؛ کہ یکطرفہ ملک کو بند کردینا، انسانی زندگی کو روک دینا کتنا خطرناک ہے، رگھورام راجن ایک معروف معاشی محقق اور ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر ہیں، انہوں نے اس لاک ڈاؤن کو مزید بڑھانے کے سوال پر اسے خطرناک ترین قرار دیا ہے، راہل گاندھی اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ ملک کو بند کرنا دراصل ایک paus بٹن کے مانند ہے، یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے، چنانچہ اصل امتحان اس وقت شروع ہوگا جب لاک ڈاؤن کھلے گا اور زندگی رفتار پکڑے گی، کمال کی بات یہ ہے کہ اب بی جے پی کے پاس کانگریس کو کوسنے یا کسی دوسرے پر اپنی ناکامی کا ٹھیکرا پھوڑنے کا موقع نہ ہوگا، ظاہر ہے اب بھارت ایسا ہی ہے جیسے آزادی کے بعد کانگریس کو ملا تھا، انہوں نے جو کچھ کرنا تھا وہ کیا گیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے بھارت کی تشکیل کن خد و خال پر ہوتی ہے، اسے کیسے عالمی سطح پر ایک ایسا ملک بنایا جاتا ہے جس کا خواب خود بی جے پی دکھاتی آئی ہے، نوکریوں کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں، غریبوں کی موت اور بڑھتی شرح خود ایک پریشان کن معاملہ ہے، بھارت میں بڑی سرعت کے ساتھ فقراء کی تعداد بڑھ رہی ہے، رپورٹس کہتی ہیں کہ چالیس کڑور سے زائد لوگ خط افلاس سے نیچے جا سکتے ہیں، جن کے پاس کھانے پینے کو بھی نہ ہوگا اور نہ کوئی کام ہوگا، جس سے اپنا پیٹ بھر سکیں، اس سے پہلے منریگا میں ہی بمشکل لوگوں کو سال بھر میں تیس دن یا چالیس دن کا کام ملتا تھا اور رقم اتنی ملتی تھی؛ کہ شاید ایک آدمی کیلئے بھی کافی نہ ہو چہ جائے کہ کوئی اس سے اپنا پورا گھر پالے.*
*مشہور اور معتبر صحافیوں میں سے ایک جناب ونود دعا صاحب (جن پر دو روز قبل تنقیدی صحافت کی وجہ سے FIR کیا گیا ہے) نے بھارت لاک ڈاؤن کے بعد کی ایک ہلکی تصویر بتائی ہے، انہوں نے کئی چیزیں بیان کی ہیں ایک طرف اکانامی پر تشویش کا اظہار کیا ہے، تو دوسری جانب انہوں کہا ہے کہ جب لاک ڈاؤن کھلے گا تو یہ دیکھا جائے گا کہ ملک میں معاشرتی منافرت کتنی زیادہ عام ہوگئی ہے، ویسے بھی پچھلے چھ سالوں سے نفرت کے سوا کچھ نہیں کیا گیا؛ لیکن اس لاک ڈاؤن میں اس بیج کی سوداگری ہوئی ہے، نفرت و تشدد کو پالا گیا ہے، اسے پانی اور کھاد سے کر پروان چڑھایا گیا ہے، چنانچہ سارا زور مہاماری سے نپٹنے کے بجائے آپسی خلیج بڑھانے اور ہندو مسلمان کے درمیان پھوٹ ڈالنے میں لگایا گیا ہے، سوسائٹیز پر پابندیاں عائد کردی گئیں، سبزی خریدنے اور بیچنے کیلئے مذہب کی علامت ہی سب کچھ قرار پائی، اب مسلمان اور ہندو اپنے اپنے دربے میں رہیں گے، وہ ایک دوسرے کو مزید کاٹ کھانے کیلئے بے تاب ہوں گے، سنگھ بہت زیادہ حرکت میں آجائے گا، حالانکہ کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں، چنندہ مسلمانوں کو گھیرا جارہا ہے، ان کی قوت پر حملہ ہورہا ہے.*
*مذہبی بنیاد پر گرفتاریاں ہورہی ہیں، بلکہ دہلی مسلم. کشی کا الزام بھی مسلمانوں پر رکھ دیا گیا ہے، کئی کیسیز نقل کئے گئے ہیں. اسی طرح لاک ڈاؤن کے بعد یہ حقیقت بھی کھل کر آئے گی کہ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کن دائروں کو اختیار کرتے ہیں، اس وقت یہ نظر آتا ہے کہ صوبے کووڈ 19 سےخود ہی لڑ رہے ہیں، مرکز نے کوئی ذمہ داری نہیں لی ہے؛ بلکہ وقت وقت پر بے سر وپا کے فیصلے لینے کے بعد اسے صوبوں پر چھور دیا جارہا ہے، ابھی مزدوروں کو ہی ان کے گھروں تک پہنچانے کا مسئلہ ہے، سرکار نے سارا ذمہ صوبائی حکومتوں پر چھوڑ دیا ہے، یہ نقصان دہ بات ہے، بھارت کی مرکزیت اور اس کی جمہوری تشکیل پر خطرہ ہے، اگر سینیٹر نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو صوبے اتنا طاقتور ہوجائیں گے کہ مرکز کی اہمیت ختم ہوجائے گی، جس کے اشارے بھی مل رہے ہیں،چنانچہ یہ مسلم ہے کہ وزیراعظم کی میٹنگ میں کیرلا کے وزیر اعلی نہیں آتے، بنگال کی ممتا بھی رخ نہیں کرتیں، اور اگر آتی ہیں تو مشاورت میں تلخی پیدا ہوجاتی ہے، کانگریس کے وزرائے اعلیٰ بھی ایک الگ رویہ رکھتے ہیں؛ جبکہ بی جے پی کے وزراء خصیہ برداری سے آگے نہیں بڑھ پاتے، بہرحال یہ لاک ڈاؤن بہت سی مصیبتوں کا باعث بنا ہے؛ لیکن بھارت کیلئے سب سے بڑا چیلنج آنے کو ہے، ملک کو کرونا وائرس کے قہر کے بعد معاشی چیلنج کو جھیلنا ہے اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپسی نفرت کا طوفان بھی سامنے ہے.*