تکلف بر طرف
*"بیجا "تکلف" اسلامی تعلیمات کے منافی ہے"*
محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
انبیاء کرام اور رسولان عظام کی زندگی میں قدر مشترک جو چیز ہے اور ان کی سیرت اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے سے جو حقیقت کھل کرسامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ سب کے سب سادہ لوح، حقیقت پسند، نیک طبعیت نیک مزاج، بے تکلف و بے لوث تھے اور انتہائی بلند اخلاق و عادات کے حامل تھے، اور ان اوصاف و کمالات میں وہ دنیا میں تمام انسانوں کے مقابلے میں نمایاں اور فائق و ممتاز تھے،عام طبقئہ انسانی کی ان کے عشر عشیر تک رسائی نہیں ہوسکتی ہے، تکلف،تصنع، بناوٹ، ہٹو بچو اور خواہ مخواہ کی بناوٹی زندگی اور معمولات سے وہ کوسوں دور تھے، وہ اپنی قوم سے مخاطب ہوکر کہتے تھے "وما انا من المتکلفین" ہم خواہ مخواہ اور بیجا تکلف و تصنع کرنے والے نہیں ہیں ۔۔۔ خود پیارے آقا ﷺ تکلف و تصنع سے کوسوں دور تھے ، آپ کی تعلیم??ت میں صرف سچائی اور حقیقت بیانی ہوتی تھی اور بیجا تکلف و تصنع کو کسی حال میں آپ پسند نہیں فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت اسی حقیقت پسندی کے ساتھ فرمائی اور ان کو اجتماعی اور انفرادی زندگی میں تکلف و تصنع برتنے سے منع فرمایا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ دلوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ نیک، علم و معرفت کی تہہ تک پہنچے ہوئے تھے اور تکلف و تصنع اور بناوٹی زندگی سے کوسوں دور تھے، حقیقت پسندی اور سادگی ان کی طبیعت اور خمیر میں شامل تھی۔۔۔۔۔
لیکن افسوس کہ آج اسلامی معاشرہ اور ہمارا موجودہ سماج و سوسائٹی انبیاء کی ان اعلیٰ اور پاکیزہ تعلیمات اور خوبیوں سے عاری اور خالی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ خوبیاں ان میں کم پائی جارہی ہے۔ پورا معاشرہ اور سماج مصنوعی اور تکلف و تصنع والی زندگی گزار رہا ہے، لگی بندی اور بنی بنائی بات،اور گول مول اور مبھم گفتگو ، اندر کچھ اور باہر کچھ والا عمل، باغباں اور صیاد دونوں کو خوش کرنے کی پالیسی اور ہاں ہاں کے ارادے نانا کہنا، دل میں کچھ زبان پر کچھ، تقریر کچھ عمل کچھ، مشورہ کچھ اور اقدام کچھ یہ سارے عمل عام ہیں اسی لیے آج بہت مشکل کام ہے مخلصین اور بے لوث کام کرنے والوں کا پتہ لگانا۔۔۔ آپ کسی ادارہ، مرکز اور خانقاہ میں چلے جائیں، کسی فرد یا جماعت سے مل لیں،آپ وہاں رسمی اور بیجا تکلفات کی نہ ٹوٹنے والی زنجیر دیکھیں گے اور وہاں اکثر فرد کو تصنع و تکلف اور رسمی کاموں میں شریک و مبتلا پائیں گے آپ صاف محسوس کریں گے کہ یہاں کی زندگی بھی روحانیت اور حقیقت و واقعیت سے کوسوں دور ہے،
شریعت کا ہم سے مطالبہ ہے کہ ہم حقیقت و واقعیت والی زندگی گزاریں، تصنع و تکلف والی زندگی سے کوسوں دور رہیں۔ ہمارا ہر کام ، اور ہر عمل، ہماری دعوت، ہماری تعلیم و تبلیغ اور ہماری تمام دینی و دنیاوی سرگرمیاں حقیقت سے قریب ہو ان میں ریا، نام و نمود اور دیکھاوا نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے اسلاف نے ایسا کرکے دکھایا اور دنیا والوں کو گائیڈ لائن دیا کہ حقیقی اور مومنانہ زندگی کس طرح گزاری جاتی ہے اور گزارنی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سلسلے کی ایک مفید اور موثر تحریر ہم ہدئیہ قارئین کرتے ہیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے تکلف برطرف کرکے حقیقی اور سچی زندگی کس طرح گزارنی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہ مکرمہ میں مشہور ادیب کبیر استاذ علی طنطاوی رحمہ اللہ کے برادر اصغر شیخ سعید طنطاوی رحمہ اللہ قیام پذیر تھے ، ان کا اصل فن فیزکس تھا ، اس کے بڑے ماہر تھے ، لیکن دیگر علوم خصوصا ادب وشعر میں بھی ان کا مقام بہت بلند تھا ، ہزاروں اشعار ان کو یاد تھے ، اور بڑے ترنم سے پڑھتے تھے ۔ تاریخ وسیر میں ان کی معلومات بہت وسیع تھیں ۔ فلکیات سمت قبلہ کی معرفت وغیرہ میں بھی بہت ماہر تھے ۔
اصولوں کے بہت پابند تھے ، مزاج کے بہت سخت تھے ، اور تکلفات سے بہت زیادہ دور ۔ اور ہر ایک کی اصلاح بر ملا فرماتے تھے ، اس لئے صرف متحمل المزاج لوگ ہی ان کی زیارت کے لئے جاتے تھے ، اور شیخ تجرد کی زندگی گزار رہے تھے ۔
ایک مرتبہ میرے ایک بزرگ - جو فلکیات میں مہارت رکھتے تھے اور اس وقت وہ عمرہ کے لئے آئے ہوئے تھے - نے کہا کہ : مجھے شیخ سعید سے ملاقات کرنی ہے ، مجھے فلکیات کے سلسلہ میں کچھ باتیں ان سے معلوم کرنی ہے ، تو میں موصوف کے ہمراہ شیخ سعید طنطاوی رحمہ اللہ کے یہاں عصر کے بعد پہنچا ۔
مہمان خانہ میں شیخ نے بٹھایا اور پھر کچھ دیر بعد حسب معمول پوچھا کہ آپ حضرات آیس کریم لینا پسند کریں گے ؟
میں نے بزرگ مہمان کو اردو میں ترجمہ کر کے حضرت شیخ کی بات بتائی تو انہوں نے اپنی حلق کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ شیخ سے کہنا کہ آج کل حلق میں خراش ہے ، اس لئے آیس کریم مناسب نہیں ہے ۔
اس بات پر شیخ خفا ہو گئے اور کہا کہ : یہ ایک لا یعنی ہے ، میں نے بیماری کے بارے میں نہیں پوچھا ، بلکہ صرف اتنا سوال کیا تھا کہ آیس کریم لینا پسند کریں گے ؟ اس کا آسان جواب نعم یا لا میں دے دینا کافی تھا ، کچھ میں زبردستی آیس کریم حلق میں انڈیلنے والا تو نہیں تھا ۔
پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد شیخ نے کہا کہ : جب آیس کریم مناسب نہیں ہے تو چائے تو چلے گی ۔
اس پر مہمان نے مجھ سے کہا کہ : شیخ سے کہنا کہ عصر کے بعد چائے پینے کی عادت نہیں ہے ، میں صرف صبح میں ایک وقت پیتا ہوں ۔
اس جواب پر شیخ نے پھر خفگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ : میں نے آپ کی معمولات کے بارے میں سوال نہیں کیا ، میں نے تو صرف یہ پوچھا کہ چائے چلے گی ؟ اس کا آسان جواب نعم یا لا تھا ، باقی بات زائد ہے ۔
پھر مزید چند باتوں پر تنبیہ فرماکر ارشاد فرمایا کہ : مجھے لوگوں کے تکلفات اور گول مول باتیں کرنے سے سخت نفرت ہے ، صاف گوئی اپنا شعار بناؤ ، قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے بزبان نبی علیہ السلام : (وما انا من المتکلفین) ، اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی سادہ مزاج رکھنے والے تھے ، تکلفات اور باتیں بنانے سے بہت دور تھے ۔
جب شیخ صاحب کی زیارت سے واپس لوٹے تو ہمارے بزرگ نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ : آج تو شیخ نے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی یاد دلا دی ، ان کے یہاں بھی رسوم ورواجات کی اصلاح کا اہتمام ہوتا تھا ۔
(شیخ طلحہ منیار حفظہ اللہ کی تحریر سے مستفاد)
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔