تراویح کی رکعات اور ہمارا رویہ

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(894)

*تراویح کی رکعات اور ہمارا رویہ!!*

*رمضان کا مبارک مہینہ آتے ہی ہر سال ایک قدم بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ تراویح کتنی رکعات پڑھی جائیں؟ ایسا لگتا ہے کہ وہ مباحثین وقت کے انتظار میں رہتے ہیں، اور موقع ملتے ہی اپنی ساری توانائی ایک ایسے مسئلے پر صرف کرنے لگتے ہیں، جن سے اب کوئی فائدہ نہیں، سوائے آپسی انتشار اور ضیاع وقت کے کچھ حاصل نہیں، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سینکڑوں کتابیں دستیاب ہیں، سیر حاصل بحثیں کی جا چکی ہیں، شاید ہی کوئی پہلو ہو جسے تشنہ چھوڑا گیا ہے، جواب الجواب اور رد علی الرد کی بھی بھرمار ہے، بیس رکعات کے حاملین ہوں یا چھتیس، نو، گیارہ (بخاری :1147 ، مسلم :738) یا تیرہ رکعات (بخاری :1138 ،مسلم :763) کے ماننے والے ہر ایک کے پاس دلائل موجود ہیں، اور دونوں گروہوں کے دلائل تقریباً ہم پلہ ہیں، اگرچہ امت کی اکثریت کا رجحان بیس رکعات کی طرف ہے، اور متقدمین و متأخرين نے عموماً اسی کو ترجیح دی ہے، لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ ترجیح کسی کی تنکیر پر دال نہیں ہے، تاہم قابل غور امر یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر میں لاک ڈاؤن ہے، انسانی ??ہن کی کشمکش کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، کھانے پینے کی دقتوں اور مہاماری کا خوف بھی سر پر ہے، نماز و روزوں کی پابندی بھی مشکل ہے، مساجد کی برکتیں منہ پھیر چکی ہیں، محلے اور سوسائٹی کی رونق غائب ہے، دل ودماغ پر مکڑیوں نے جالے بن دئے ہیں، صحرائی ہواؤں کی سنسناہٹ محسوس ہوتی ہیں، بلکہ خود کی سانسیں بھی کسی صحرا سے کم نہیں لگتیں، تنہائی میں بیٹھا انسان اپنے دل کی دھڑکن سے بھی ڈر جاتا ہے، اور ہر وقت سمندر کا شور اور طوفان بلاخیز کی آہٹ محسوس ہوتی ہے، جگر کی جلن اور سینہ کی بے رخی پر جیسے پل صراط ہے، تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک.*

*اس کے باوجود بہت سے سیر یافتہ افراد tom اور Jerry کی حرکت کرتے ہیں، بال کی کھال نکالنے اور فارغ وقت میں اپنی مسرفانہ تحقیق سے امت کیلئے مشکلیں پیدا کرتے ہیں، غور کیجئے! لاک ڈاؤن کے بعد اب تک چار جمعہ ہوچکے ہیں؛ لیکن اب تک جمعہ کا مسئلہ حل طلب ہے، ہر جمعہ کو یہی سوالات پوچھے جاتے ہیں؛ کہ کیا گھر میں جمعہ یا ظہر جماعت کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں، حالانکہ مسائل کی تحقیق جید علماء اور اصحاب افتاء کی طرف سے آچکی ہے، اسی طرح تراویح کی رکعات بھی ہیں، اگر واقعی اشکالات ہیں تو اسے اپنے معتبر عالم سے دریافت کیجئے، ممکن ہو تو خود تحقیق کیجئے؛ لیکن سینہ کشادہ رکھئے، یہ بات یقینی ہے کہ قطعی الدلالۃ اور قطعی الثبوت میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا عموماً اختلاف ظنی دلائل، ظنی ثبوت میں ہوتا ہے، اور ایسے اختلافات میں جھگڑنا، مناظرے کرنا، خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط ٹھہرانے کی کوششیں کرنا نادانی کی بات ہے، یہ کم علمی اور تعصب کا عکس ہے، اس امت کا امتیاز یہ بھی ہے کہ قرآن و سنت کے دائرے میں کئے گئے اختلافات کو رحمت گردانا گیا ہے، اب جو شخص رحمت کی قطعی تعیین پر بضد ہوجائے اور اس رحمت کو خاص دائرہ میں مقید کر کے بقیہ سبھی کا انکار کردے تو اس نے خدا کی بے پناہ رحمتوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے، اس نے علم الغيب کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی ہے، ذیل میں اس مسئلہ پر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ایک اہم اقتباس نقل کرتے ہیں، جو چشم کشا اور حقیقت کشا ہے، آپ رقمطراز ہیں:*

*" قیامِ رمضان کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ و سلم نے رکعتوں کی کوئی تعداد متعین نہیں فرمائی ہے _ آپ نے رمضان اور غیر رمضان میں کبھی 13 رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی ہے _ لیکن آپ ہر رکعت میں طویل قیام کرتے تھے _ جب حضرت عمر نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں باجماعت نمازِ تراویح شروع کروائی تو وہ 20 رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھاتے تھے _ رکعتوں کی تعداد زیادہ ہو جانے کی بنا پر وہ ہر رکعت میں مختصر قراءت کرتے تھے _ اس سے نماز پڑھنے والوں کو آسانی ہوگئی کہ انہیں طویل قیام نہیں کرنا پڑتا تھا _ بعد میں سلف میں سے بعض لوگ 40 رکعتیں تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھنے لگے _ بعض لوگوں نے 36 رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھنی شروع کر دی _ ان سب کی گنجائش ہے _ چاہے جتنی رکعتیں پڑھ لی جائیں ، بہتر ہے _ نمازیوں کے حالات کے اعتبار سے افضل حکم بدلتا رہتا ہے _ اگر کوئی شخص طویل قیام کر سکتا ہے تو اس کے لیے 10 رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر پڑھنا افضل ہے ، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان اور غیر رمضان میں کرتے تھے _ اور اگر وہ طویل قیام نہیں کر سکتا تو اس کے لیے 20 رکعت پڑھنا افضل ہے ، جیسا کہ مسلمان کرتے ہیں _ یہ تعداد 10 اور 40 کے درمیان ہے _ اگر وہ تراویح میں چالیس رکعتیں پڑھ لے ، یا اس کے علاوہ کسی تعداد میں پڑھ لے تو بھی جائز ہے _ اس میں کچھ کراہت نہیں ہے _ متعدد ائمہ مثلاً امام احمد وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے _ جو شخص یہ گمان کرتا ہے کہ قیامِ رمضان میں رکعتوں کی تعداد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے متعیّن ہے ، جس میں کمی یا زیادتی نہیں کی جاسکتی ، وہ غلطی پر ہے _"*(فتاویٰ ابن تیمیہ :272/22_بشکریہ : ڈاکٹر رضی الاسلام صاحب ندوی)

✍ *محمد صابر حسین ندوی*

Mshusainnadwi@gmail.com

7987972043

24/04/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔