*محمد قمرالزماں ندوی*
*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*دنیا* میں جس مذہب نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ (بلکہ عام انسانوں کے ساتھ بھی) سب سے زیادہ حسن سلوک کا حکم دیا وہ مذہب اسلام ہے ۔ یہ مذہب تو قیدیوں جاسوسوں تک کو بھی عزت و احترام سے نوازتا ہے ۔ غلاموں اور خادموں کو بھی پیار کرنے اور ان کے ساتھ بھر پور رعایت کی تعلیم دیتا ہے ۔ اسلام کا بین الاقوامی خارجہ پالیسی اور سفارتی ڈپلومیسی پوری دنیا کے لئے نمونہ ہے ۔ کاش ہم لوگ عالمی سطح پر اس کو پھیلانے اور لوگوں تک اس کو پہچانے کی کوشش کئے ہوتے ۔
*ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ* جو *یمامہ* کے گورنر اور سردار تھے اسلام لانے سے پہلے وہ اسلام اور مسلمانوں کے کٹر دشمن تھے لیکن جب وہ ایک موقع پر مسلمانوں کے قبضہ اور پکڑ میں آگئے اور ان کو صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم نے مسجد نبوی کے ستون سے باندھ دیا ۔اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا اور ان پر آپ کی نظر پڑی تو آپ نے گرہ ڈھیلی کرنے اور رسی کو ہلکا باندھنے کا حکم فرمایا اور ان کے خورد و نوش کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انتظا?? فرمایا ۔ ثمامہ بن اثال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور اوصاف حمیدہ کو دیکھ کر نہ صرف متاثر ہوئے بلکہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ، اور اس سے پہلے وہ اسلام کے کٹر دشمن تھے اب وہ اسلام کے سب سے بڑے حامی اور حمایتی بن گئے ۔
*اسلام* نے نہ صرف غلاموں کے ساتھ نرمی برتنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی،بلکہ ان کو آزاد کرانے کی ایسی ترغیب دی کہ آج دنیا سے غلام اور غلامی کا خاتمہ ہوگیا ۔
*اسلام* سے پہلے غلاموں اور خادموں کے ساتھ جو سلوک اور رویہ تھا وہ نہایت ہی شرمناک اور ظالمانہ تھا، اس معاشرہ میں غلاموں کو جانور سے بھی زیادہ بدتر سمجھا جاتا تھا اور عزت کے ساتھ جینے کا انہیں کوئی حق حاصل نہ تھا ۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے جہاں دنیا کے تمام طبقات کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی، وہیں آپ نے غلاموں خادموں اور قیدیوں کے ساتھ خاص طور پر رعایت برتنے کی تاکید کی اور ان کو ان کا جائز حق دلایا ۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا : جس کے پاس کوئی غلام ہو تو اس کو چاہیے جو خود کھائے وہی اس کو کہلائے، اور جو خود پہنے وہی اس کو پہنائے ۔ (متفق علیہ)
حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ۰۰ جان لو ابو مسعود ! میں نے غصہ کی وجہ سے آواز پر توجہ نہیں دی ،لیکن جب وہ آواز مجھ سے قریب ہوئی تو میں آواز پہچان گیا۔ وہ آواز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔ اور آپ فرما رہے تھے جان لو اے ابو مسعود ! میں نے آپ کو دیکھتے ہی کوڑا زمین پر پھینک دیا ۔ آپ نے فرمایا :
*اعلم یا ابا مسعود ! ان اللہ تبارک و تعالٰی اقدر علیک منک ھذا الغلام*
جان لو اے ابو مسعود ! اللہ تعالی تم پر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا کہ تم اس غلام پر قادر ہو ۔
*حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ* نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج کے بعد میں کبھی بھی غلام کو نہیں ماروں گا ۔ بلکہ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ابو مسعود نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! یہ اب اللہ کے لئے آزاد ہے ۔ آپ نے فرمایا اگر ایسا نہیں کرتے تو تم کو آگ چھو لیتی (۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم۔۔۔۔۔۔)
ایک موقع پر *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا : جس نے کسی غلام کو مارا تو اس کا کفارہ اس کی آزادی ہے ۔
*آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے ہمیشہ کمزوروں ضعیفوں اور ماتحتوں کی مدد کی،غلاموں کو آزاد کیا۔ خادموں سے انصاف کیا۔ اور ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑا ۔
چنانچہ *حضرت انس رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ مجھے دس سال *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کی خدمت کا موقع ملا لیکن خدا کی قسم نہ کبھی آپ نے مجھ سے یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا ،اور نہ کبھی میرے کسی کام کے نہیں کرنے پر یہ کہا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا ؟
بلکہ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا کہ آپ کا حال یہ تھا کہ آپ اپنے خادموں سے پوچھا کرتے تھے *الک حاجة* ؟ کیا تم کو کوئ ضرورت تو نہیں؟
*آج* ضرورت ہے کہ اسلام کی ان پاکیزہ تعلیمات کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیارے اسوے کو اپنایا جائے اس کو پھیلایا جائے ۔ اس سے لوگوں کو واقف کرایا جائے ۔ فرد کی سطح پر اور حکومت کی سطح پر اور سفارتی تعلقات کی سطح پر اس کو برتا جائے ۔ آج دنیا کو اسی تعلیم کی ضرورت ہے جس تعلیم کو آپ نے پوری دنیا میں عام کیا تھا اور جس اخلاق اور اقدار کو پھیلانے کے لئے آپ اس دنیا میں تشریف لائے تھے ۔ خاص طور پر اسلامی ممالک کو خارجہ پالیسی میں دور نبوی اور دور خلفائے راشدین کے نمونے اور مثالوں کو اپنے لئے نمونہ بنانا چاہئے ۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔