توبہ بے چینی و بے قراری کا موثر اور مفید علاج

از: محمد قمرالزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

کل خاکسار نے توبہ استغفار اور ندامت کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس مشکل گھڑی میں جب کہ پوری دنیا میں کرونا، وایرس کی وجہ بے چینی اور بے کلی کی حالت ہے اور لوگ اس بیماری اور وباء سے اتنے سہمے اور ڈرے ہوئے ہیں کہ جلوت کو چھوڑ کر بالکل خلوت میں چلے گئے ہیں اور ہر ایک گوشہ نشینی میں عافیت کو تلاش کر رہا ہے بلکہ بعض لوگ ڈر کی وجہ سے خود کشی تک کر چکے ہیں۔ ایسے وقت میں اسباب سے زیادہ خالق اسباب کو راضی کرنا اور منانا زیادہ ضروری ہے اس کا راستہ توبہ و استغفار ، احساس ندامت اور رجوع و انابت ہے۔ کل کچھ باتیں رہ گئی تھیں ، خاص طور پر یہ پہلو کہ توبہ بے چینی و بے کلی کی دوری کا مفید و موثر ذریعہ ہے۔ آج کی تحریر میں اس حوالے سے گفتگو کی جارہی ہے۔ م ق نے*

                                   *جامعہ* ام القری *مکہ مکرمہ* کے شعبئہ علم النفس کے سابق معاون استاد *ڈاکٹر عبد المنان* نے ایک موقع پر *توبہ* اور اس کے *نفسیاتی اثرات* کے موضوع پر لکچر دیتے ہوئے *توبہ* کے معنی و مفہوم، اس کی حقیقت اور اس کے دینی تصور کی وضاحت۔،اور اس کے نفسیاتی پہلو کو تفصیل سے اجاگر کیا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ اسلامی شریعت میں *توبہ* کے معنی *خدا سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب، برائی کا احساس اور معصیت پر اظہار ندامت اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم ہے* ۔ 

*ڈاکٹر عبد المنان* نے *توبہ* کے نفسیاتی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ اعتراف گناہ سکون قلب کا موجب ہے ۔ کیوں کہ گناہوں کی وجہ سے دل کو بار اور احساس میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے اور *توبہ* دل کے بوجھ کو ہلکا کرتا اور احساس میں سکون لاتا ہے ۔ *توبہ* کے اور بھی بے شمار پہلو ہیں جن سے بندئہ مسلم از سر نو اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے ،تزکیہ نفس اور توجہ الی کے لئے امید کے دروازے کھل جاتے ہیں، توبہ کی وجہ سے وہ دلی راحت اور قلبی سکون محسوس کرتا ہے اور زندگی کے بارے میں نیک شگون رکھتا ہے ۔ دراصل یہ ایمان باللہ اور اتباع سنت کا لازمی نتیجہ ہے۔ بندہ جب سچی توبہ کرتا ہے اور اطاعت الہی کو لازمئہ حیات بنا لیتا ہے تو اس کا دل پرسکون اور نفس مطمئن ہوجاتا ہے اور اس گناہ کا احساس زائل ہو جاتا ہے جس سے اس کے دل میں بے چینی اور شخصیت میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے ۔ 

           توبہ کرنے سے انسان پاک ہوجاتا ۔ اور جب گناہ سے توبہ کرنے کے بعد نیک عمل شروع کرتا ہے تو ایک خاص لذت محسوس کرتا ہے ۔ *امجد حیدر آبادی مرحوم* نے کیا خوب حقیقت کی ترجمانی کی ہے ۔ 

    *جب اپنی خطاوں پہ میں شرماتا ہوں*  

    *اک خاص سرور قلب میں پاتا ہوں*  

*توبہ کرتا ہوں جب گنہ سے امجد* 

      *پہلے سے زیادہ پاک ہوجاتا ہوں* 

             *توبہ* سے انسان صرف پاک ہی نہیں ہوتا اور صرف قلبی اور ذہنی سکون ہی محسوس نہیں کرتا بلکہ اس *توبہ* کے بعد *اللہ تعالی* اس کے رزق میں اضافہ بھی کرتا ہے ۔ *سنن ابی داؤد* باب الاستغفار میں یہ *حدیث صحیح* موجود ہے کہ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا :

*من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ضیق مخرجا ،و من کل ھم فرجا،و رزقہ من حیث لا یحتسب* 

       جس شخص نے استغفار کا التزام کیا اللہ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ نکالے گا ،ہر غم اور پریشانی سے نجات دے گا ،اور اس طرح اسے رزق دے گا کہ اسے گمان بھی نہیں ہوگا ۔ 

      توبہ ایک بہترین اور پاکیزہ ترین عمل ہے۔ توبہ کرنے والے کو اللہ اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ توبہ میں انتہا درجہ کی شان پردہ داری بھی پاءی جاتی ہے۔ بندہ جب گھناؤنے سے گھناؤنے فعل اور عمل کو خدا سے ڈر کر ترک کر دیتا ہے اور عزم کرتا ہے کہ وہ اب اس فعل کا ہرگز مرتکب نہ ہوگا تو اس کے طرز عمل کو اعتراف جرم سے نہیں بلکہ توبہ سے تعبیر کرتے ہیں، گویا بندہ اپنے خدا کی طرف لوٹا، اور اس کی طرف رجوع ہوا جو ایک بہترین وظیفہ حیات ہے۔ اس طرح بندے کی عیب پوشی کی جاتی ہے، اس کے مقبول بارہ گاہ ہونے کی خبر دی جاتی ہے، اور اسے رسوائی سے بچا لیا جاتا ہے۔ 

                  توبہ و استغفار کے زریعہ سے انسان تنگی، پریشانی اور مشکل سے نکل جاتا ہے۔ ذھنی تناو الجھن اور ڈپریشن سے نجات پاتا ہے۔ توبہ و استغفار رزق کی کشادگی کا سبب اور ذریعہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص استغفار کو اپنے اوپر لازم کر لے تو اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے نکلنے کی راہ اس کے لیے پیدا کرتا ہے۔ اور ہر رنج و غم سے نجات عطا کرتا ہے اور اسے ایسی جگہ اور ایسے طریقے سے رزق بہم پہنچاتا ہے کہ جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔ ( مسند احمد،/ ابو داود) 

                         معلوم یہ ہوا کہ بندہ ہر حال میں خدا کا محتاج ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ توبہ اور استغفار کے ذریعے اپنے رب کو راضی کرے، اس سے وابستہ رہے خوف خدا کا تقاضا بھی یہی ہے اور رحمت خدا وندی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ 

             توبہ کی تاثیر کے حوالے سے حضرت مولانا شرف الدین یحیی مخدوم بہاری منیری رح لکھتے ہیں: توبہ اس طرح ہوتی ہے۔ اور مرید جس موقع پر تاءیب ہوتا ہے اس کو گردش کہتے ہیں۔ یعنی پلیدگی و آلودگی کی حالت سے پاکی کی حالت میں وہ تبدیل ہوگیا، کلیسا تھا مسجد ہوگیا، بت خانہ تھا عبادت گاہ بن گیا، سرکش تھا، انسان بن گیا، مٹی تھا سونا بن گیا، اندھیری رات تھی روز روشن ✨ ہوگیا۔ اس وقت مومن کے دل پر آفتاب طلوع ہوتا ہے، اور اسلام اپنا جمال دکھاتا ہے اور کوءیے معرفت کی راہ پا جاتا ہے۔ آءیے دامن توبہ تھام کر امید وار رحمت بن جاءیں۔ ( سنہرے اوراقِ /٦٦) 

            *اللہ تعالٰی* ہم سب کو صدق دل سے توبہ و استغفار کی توفیق دے ۔ گناہ سے نفرت کا جذبہ پیدا کردے اور ایسا پختہ ارادہ کی توفیق دے کہ آئندہ یعنی مستقبل میں گناہ کا ارتکاب ہم نہ کریں ۔ یعنی وہ توبہ جس توبہ کو قرآن نے توبت نصوح کہا ہے ۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔