*محمد قمرالزماں ندوی*
*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*اس* وقت *امت مسلمہ* تاریخ کے بہت نازک دور سے گزر رہی ہے۔ جان مال، عزت وابرو اور دین و ایمان ہرچیز داو پر لگی ہوی ہے۔ حکومت وقت کے عزائم و ارادے، انتاہی خطرناک ہیں، مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ ان کے وجود کو مثانے کی بھرپور سازشیں ہو رہی ہیں۔ عالم اسلام کے حکمراں وہ دشمنوں کے ہاتھوں بک چکے ہیں۔ عراق۔ شام ایران یمن اور بہت سے ممالک خانہ جنگی کاشکار ہیں یا دشمنوں کے نرغہ میں ہیں،لاتعداد لوگ خانماں برباد ہوچکے ہیں، اور ہزارہا افراد روزانہ موت کے میں منھ میں ڈھکیلے جاتے ہیں۔ ہرطرف شور و غوغہ ہے۔ لوگ مایوسی کا شکار ہیں، بلکہ بہت سے لوگ تو کفریہ کلمات تک زبان سے نکال دے رہے ہیں۔ اور خدائے وحدہ لاشریک کی طاقت و قدرت پر نعوذ باللہ شبہ کا اظہار کرنے لگے ہیں۔
*ایسے* موقع پر امت کا تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ موجودہ صورتحال کے تجزیہ، اور اسباب و وجوہات کی تلاش میں افراط و تفریط کے شکار ہیں۔ کچھ اہل علم مسلم قوم کو تباہی سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ۔ سارا زور اور پوری طاقت صرف ظاہری اسباب و وسائل اختیار کرنے پر دے رہے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلم امہ کے مسائل کا حل یہ ہے کہ ایڈوانس،ایجوکیشن پر زور دیا جاے دولت کے حصول اور سیاست میں شراکت پر جد و جہد کی جانے۔
بعض لوگ مسائل کا حل صرف نماز دعا اور ذکر و اذکار بتاتے ہیں۔ قنوت نازلہ کا پژھ لینا ظالموں کے لیے بدعا کر لینا اور دانے پر آیات، اور دعا کا پژھ لینا کافی خیال کرتے ہیں۔ اور تدبیر اور وسائل و اسباب کے اختیار کرنے کو وہ عبث اور بے کار خیال کرتے ہیں، وسائل و اسباب کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، جب کے یہ دونوں رویے، اور طرز عمل مناسب، نہیں ہے۔ نیز شریعت کے مزاج سے میل نہیں۔ کھاتے۔ شریعت نے اس بارےمیں جو رہنمائی کی ہے اور اعتدال کا جو راستہ بتایا ہے اس کا جاننا اور اس پر عمل کرنا صروری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں فتح و کامرانی کے لئے خاص طور پر پہلے تمام تدابیر اختیار کی، جنگی حکمت عملی اپنائ ،اسباب و وسائل اور جنگی آلات کی جانب بھی توجہ کی، اور پھر عریش یعنی ایک چھپر کے نیچے جاکر اس قدر الحاح و تضرع کے ساتھ دعا فرمائی کہ خدا کو بھی ترس آگیا ،بندے پر رحم آگیا اور *وحی* کے ذریعے نصرت و حمایت کی پیشن گوئی کی گئی ۔ آج جنگی آلات اور میدان جنگ کی جگہ قانونی اور آئینی لڑائی نے لی ہے ،اس وقت علم و تحقیق زبان و بیان تحریر و تقریر اور آئین و قانون کے ذریعہ میدان جیتا جارہا ہے ،اپنے حقوق و اختیار کی لڑائیاں لڑی جا رہیں ہیں اور اپنی ملی و تہذیبی شناخت کو بچایا جا رہا ہے اپنے وجود کی لڑائی لڑی جارہی ہے۔ اس کے لئے عدالتی لڑائیاں لڑی جاتی ہیں احتجاجات اور پروٹسٹ کئے جاتے ہیں اور بھی جمہوری شکلیں اپنائ جاتی ہیں جو موثر و مفید ہوتی ہیں ۔ اگر کوئ شخص ان چیزوں کا انکار کرے اور یہ کہے کہ حالات قیامت تک ان کوششوں سے نہیں بدلیں گے ،حالات کی تبدیلی اسباب و وسائل اور ظاہری تدابیر سے ممکن نہیں ہے، صرف دعا اور عمل ہی سے حالات بدل سکتے ہیں ۔ مومن کو ظاہری تدبیر پر نہیں بلکہ صرف اللہ پر توکل کرنا چاہیے یہ فکر اسلامی تعلیمات کے مغایر ہے اور یہ فکر شرعی نقطئہ نظر سے درست نہیں ہے ۔
بعض لوگ *توکل* کا مطلب اور مفہوم وہ نکالتے ہیں اور اس کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اس کی حقیقت کو ہی مسخ کر دیتے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ *توکل* کا صحیح مفہوم بھی ہمارے ذھن میں رہے ۔
قرآن مجید کا ارشاد ہے : *و من یتوکل علی اللہ فھو حسبه* یعنی جو شخص اللہ پر توکل یعنی بھروسہ کرتا ہے اللہ اس کے سب مہمات و مشکلات کے لئے کافی ہوجاتا ہے ۔
*اللہ تعالٰی* پر *توکل* اور بھروسہ کے یہ معنی نہیں کہ کسب معاش اور دفع بلا کے جو اسباب و آلات اللہ تعالی نے آپ کو عطا فرمائیں ہیں ان کو معطل کرکے اللہ پر بھروسہ کرو،بلکہ توکل کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے مقاصد کے لیے اللہ کی دی ہوئی قوت و توانائی اور جو اسباب میسر ہیں ان کو پورا استعمال کرو،مگر اسباب مادیہ میں غلو اور انہماک زیادہ نہ کرو،اعمال اختیاریہ کو کر لینے کے بعد نتیجہ کو اللہ تعالی کے سپرد کرکے بے فکر ہوجاو ۔
غرض توکل کے معنی یہ نہیں کہ تمام اسباب ظاہری کو بالکل قطع تعلق کرکے اللہ پر اعتماد کیا جائے ،بلکہ توکل کے معنی یہ کہ تمام اسباب ظاہری کو اپنی قدرت کے مطابق جمع کرے اور اختیار کرے اور پھر نتائج اللہ کے سپرد کرے اور ان ظاہری اسباب پر فخر و ناز نہ کرے بلکہ اعتماد صرف اللہ پر رکھے ۔
*توکل* کا یہ مفہوم خود *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* نے بیان فرمایا ہے : امام بغوی رح نے شرح السنہ میں اور بیھقی نے شعب الایمان میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *ان نفسنا لن تموت حتی تستکمل رزقھا الا فاتقوا اللہ و اجملوا فی الطلب* ۔ یعنی روح القدس جبرئیل امین نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنے مقدر میں لکھا ہوا اللہ کا رزق پورا پورا حاصل نہیں کر لے گا اس لئے تم خدا سے ڈرو اور اپنے مقاصد کی طلب میں اختصار سے کام لو۔ زیادہ منہمک نہ ہو کہ قلب کی ساری توجہ انہیں مادی اسباب و وسائل اور آلات و ذرائع میں محصور ہوکر رہ جائے ۔ (کتاب التعریفات ص: ۱۵۷۔ ۱۵۸)
اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور نمونہ ہمارے سامنے ہے، خود میدان جہاد میں مسلمانوں کے لشکر کو منظم کرنا،اپنی قدرت کے موافق اسلحہ اور دیگر اسباب و وسائل اور ساز و سامان فراہم کرنا،محاذ جنگ پر پہنچ کر مناسب حال و احوال مقام و نقشہ اور جنگ کی تدبیر اختیار کرنا،مختلف مورچے بنا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان پر بٹھانا وغیرہ یہ سب تو مادی انتظامات ہی تو تھے ۔ جن کو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے استعمال فرمایا ۔ اور امت کو یہ تعلیم دی کہ مادی اسباب بھی اللہ تعالٰی کی نعمت ہیں ان سے قطع نظر کرنے کا نام توکل نہیں، ۔ یہاں مومن اور غیر مومن میں فرق صرف اتنا ہے کہ مومن سب سامان اور مادی طاقتیں حسب قدرت جمع کرنے کے بعد بھی بھروسہ صرف اللہ پر کرتا ہے،جب کہ مومن کے علاوہ کسی اور کو یہ دولت اور یہ روحانیت نصیب نہیں، اس کو صرف اپنی مادی طاقت پر بھروسہ ہوتا ہے ۔ ( مستفاد معارف القرآن تفسیرسورہ آل عمران)
موجودہ حالات میں خاص طور پر ہمیں ان حقائق کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ موجودہ حالات کے مقابلے کے لیے ہمیں توکل کی راہ کو اپنانے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ظاہری تدابیر اور اسباب و وسائل کو اپنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ بندئہ مومن خدا کے حکم کے مطابق عمل کرکے اللہ کا مطیع و فرمانبردار بندہ بن جائے اور حالات کی درستگی کے لیے راہیں آسان اور ہموار ہوجائے نیز خدائ وعدہ کا ظہور ہوجائے ، اور بندہ اپنے خدا کا شکر بجا لائے