*سوال:* کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مارے شہر میں ایک کمپنی ہے اور وہ کمپنی میں چوری کا مال بھی لے لیتے ہیں اور کڑوروں روپیہ کی لون بینکوں میں سے لی ہوئی ہے، تو ایسی کمپنی میں ملازمت کرنا کیسا ہیں، اور ایسی کمپنی کے مالک کے پاس سے مساجد و مدارس والوں کے لیے چندہ لینا کیسا ہے - اور اگر ایسی کمپنی کے مالک کے پیسوں سے کوئی ادارہ یا تنظیم چلانا ہو تو چلا سکتے ہیں اور انکے ایسے پیسوں سے تنخواہ لینا کیسا ہے- شریعت کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں. (احمد رمضانی، گودھرا)
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*الجواب و باللہ التوفیق*
یہ جانتے ہوئے کہ فلاں سامان چوری کا ہے اس کی خرید وفروخت شرعاً ناجائز ہے، اسی طرح بینک سے بلا شدید مجبوری کے سودی لون لینا حرام اور باعثِ لعنت عمل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سودی معاملہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے، سودی معاملات سے بچنا از حد ضروری ہے، البتہ ایسی کمپنی جو اس طرح کے ناجائز کاموں میں ملوث ہو تو اس میں تقوے کا تقاضہ ہے کہ نوکری نہ کی جائے تاہم اگر ایسی نوکری ہے جس سے ملازم چوری کے مال کی خریدوفروخت میں شامل نہیں ہوتا اور سودی لون میں معاون نہیں بنتا ہے جیسے کمپنی کی دیکھ ریکھ، جھاڑو، یا ملازمین کی نگرانی وغیرہ تو ایسی نوکری درست ہے اور اس کی اجرت بھی درست ہے، لیکن ایسی نوکری جس سے آدمی خود ان حرام چیزوں میں ملوث ہوتا ہو جائز نہیں ہے۔
اسی طرح اس کمپنی کی یا اس کے مالک کی اگر غالب کمائی حلال ہے تو اس کا چندہ قبول کیا جاسکتا ہے، یا اگر وہ خود وضاحت کر دیتا ہے کہ میں جو رقم دے رہا ہوں یہ حلال رقم ہے تو بھی اس کا چندہ لے سکتے ہیں، بصورت دیگر احتیاط ضروری ہے، نیز ادارہ چلانے اور تنخواہ لینے کا حکم بھی وہی ہوگا جو ابھی چندہ کا بیان ہوا(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء. (الفقه الإسلامي و أدلته ٥٥٢/٦)
اجتمع المباشر و المتسبب أضيف الحكم إلى المباشر. (الاشباه و النظائر لابن نجيم المصريص ٤/٤ القاعدة التاسعة عشر دار الكتاب ديوبند)
ثم الأجرة تستحق بإحدى معاني ثلاثة اما بشرط التعجيل أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه (الهداية ٢٩٣/٣ كتاب الإجارة باب الأجر متى يستحق)
غالب مال المهدي إن حلالا لا بأس بقبول هديته و أكل ماله ما لم يتعين أنه من حرام. (الفتاوى البزازية على هامش الهندية ٣٦٩/٦ كراتشي)
أهدي الى رجل شيئا أو اضافه إن كان غالب ماله حلال فلا بأس الا أن يعلم بأنه حرام و إن كان الغالب هو الحرام فينبغي أن لا يقبل الهدية و لا يأكل الطعام. (الفتاوى التاتارخانية ١٧٥/١٨ زكريا جديد)
ما حرم أخذه حرم إعطاءه. (الاشباه و النظائر لابن نجيم المصري ص ٣٩١ القاعدة الرابعة عشر)