جذباتیت کی نہیں، عقل و شعور کی ضرورت ہے

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ

اس بار بہار کا اسمبلی الیکشن بہار کے سیکولر ووٹروں کے لیے اور خاص طور پر بہاری مسلمانوں کے لیے بڑی آزمائش والا ہے، اور یہ چناوُ بڑی مشکلات کے تناظر میں ہو رہا ہے، اس کے دور رس اثرات مستقبل میں ظاہر ہوں گے۔ اگر ہم نے معمولی بھی چوک اور غلطی کی تو بڑے سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اس لیے اہل بہار کو بہت سوجھ بوجھ اور دانش مندی سے کام لینا ہوگا۔ ووٹ کا صحیح استعمال کرنا ضروری ہوگا۔ اس وقت چناوُ میں ووٹ صرف مشین کے بٹن کو دبا کر اپنے امیداوار کو جتانا ہی نہیں ہے، بلکہ اپنے مستقبل کے بارے میں بھی فیصلہ کرنا ہے، ووٹ کے اثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔ اس لیے جذبات میں اور عجلت میں آکر کوئی فیصلہ کرنا بہت ہی غیر ذمہ داری کی بات ہوگی۔۔۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں کوئی پارٹی ایسی نہیں ہے ، جو سو فیصد سیکولر ہو، سب کے اپنے اپنے مفاد اور تحفظات ہیں وہ اسی کو سامنے رکھ کر سیاست کرتی ہے، لیکن جس پارٹی اور محاذ کو آر ایس ایس ہینڈل کرتی ہے، وہ کھل کر ہمارے خلاف ملک کا ماحول اور فضا بنانے میں مشغول ہے، اور جس جس طرح وہ مسلمانوں اور اقلیتوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، ضرور پہنچاتا ہے اور پہنچا رہا ہے، اس میں کچھ کسر نہیں چھوڑ رہا ہے۔۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے بہت سے ساتھی صرف کانگریس کو کوسنے میں لگے ہوئے ہیں، اس کی خامیاں نکالنے میں مصروف ہیں اور سیکولر ووٹروں میں بے اعتمادی کا ماحول پیدا کر رہے ہیں، دیکھا یہ جا رہا ہے کہ سیمانچل میں ہمارے بہت سے نوجوان مہا گھٹبندھن کو کمزور کرنے میں جی جان سے تلے ہوئے ہیں (جس کا سیدھا فائدہ بی جی پی مل جا رہا ہے،) جب کے پورے صوبے میں مہا گھٹبندھن کے حق میں فضا ہے، اور لوگ یہ مان رہے ہیں کہ ان کا سیدھا مقابلہ بھاجپا سے ہے، باقی تمام محاذ وہ بھاجپا کو مضبوط کر رہے ہیں یا مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں، میڈیا اور دیگر سوشل ذرائع اس کی پیشن گوئی کر رہے ہیں، کہ اس بار بہار میں تبدیلی کی مکمل فضا ہے اور لوگ نئی اور نوجوان قیادت کو پسند کر رہے ہیں، اور جن کے آنے سے صوبہ میں آئندہ وہ فضا اور ماحول نہیں بن سکے گا جس کا لوگوں کو ڈر ہے کہ اس زعفرانی پارٹی کے اقتدار میں آنے سے صوبہ کی تصویر اور شبیہ خراب ہو جائے گی۔۔
ہم مسلمانوں کے پاس یقینا سیاسی شعور کی کمی ہے ، ہمارے یہاں ملی وحدت و اجتماعیت کی کمی ہے، الیکشن کے موقع پر ہم مختلف خانوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں، کوئی ہمیں عارضی لالچ دے کر استعمال کر رہا ہے اور کوئی مسلم پارٹی اور جذباتی نعروں کے ذریعہ ہمارے جذبات سے کھلواڑ کر لیتا ہے۔۔۔
اس وقت سب سے بڑا خطرہ سیمانچل کا ہے، وہاں زعفرانی پارٹیاں پوری کوشش میں ہیں کہ سیکولر ووٹس تقسیم ہو جائیں اور اقتدار کی کرسی پر پہنچنا ہمارے لیے آسان ہو جائے، اس لیے کہ اس بار اس پارٹی کو اگر اقتدار میں آنے کی کچھ امید ہے تو صرف سیمانچل سے ہے، باقی جگہوں سے انہیں ناامیدی نظر آرہی ہے۔۔۔
مسلمانان سیمانچل دور کا ڈھول سہانا ہوتا ہے کے محاورے پر عمل پیرا ہیں، سب نہیں لیکن ایک بڑی تعداد عجلت اور جذباتیت کے شکار ہیں، خوش فہمی میں مبتلا ہیں جوش میں ہوش کھو بیٹھے ہیں، کہ بس اس بار یہاں صرف مجلس ہے مجلس ہے مجلس ہے، اس کے علاوہ یہاں دور دور تک کسی کا نام و نشان نہیں ہے، انہیں احساس ہی نہیں ہو رہا ہے کہ پس پردہ ان کے اس فوری فیصلہ اور اقدام سے پورا فائدہ اس پارٹی کو ملے گا اور مل رہا ہے،جو ہمارے ملی وجود کو مٹانے اور ملی شعار کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔۔۔
(سیمانچل کے بعض پرجوش مجلسی ورکروں نے مجھے فون کیا کہ آپ کانگریسی ہیں، آپ کو مسلم قیادت محبوب اور پسند نہیں ہے آپ مجلس کے مخالف ہیں، آپ جھارکھنڈ کے ہیں آپ وہاں کی سیاست کریں، آپ کو بہار اور سیمانچل کے معاملے میں بولنے کا حق نہیں ہے۔۔ میں نے جواب دیا کہ میں نہ تو کانگریسی ہوں اور نہ مسلم قیادت اور مجلس کا مخالف، نہ ہی کسی سیاسی پارٹی سے میرا کوئی ربط و تعلق ہے، عالم پورے عالم( دنیا) کے لیے ہوتا ہے، اس لیے ملی اور قومی مفاد کی جب بات ہوگی تو میں ملت کے مفاد کے لیے ضرور مشورہ دوں گا اور صحیح رہنمائی کروں گا، امت کے نقصان کو اپنا نقصان سمجھوں گا۔ یہ میرا فرض منصبی ہے۔۔۔ ویسے میرا بہار سے مضبوط اور گہرا رشتہ ہے، ماضی میں جھارکھنڈ بہار ہی میں تھا، میرا گاؤں بہار اور جھارکھنڈ کا نقطئہ اتصال ہے، آدھا گاؤں بہار میں ہے اور آدھا جھارکھنڈ میں، میری زیادہ تر زمینیں جھارکھنڈ میں ہیں، قبرستان بھی بہار ہی میں ہے، میرا پہلے ایک گھر بھی بہار میں تھا جو ضلع بھاگلپور میں ہے، اب وہاں رہنا نہیں ہوتا ، اس اعتبار سے بہار کی سیاست پر مجھے لکھنے اور بولنے کا حق اور زیادہ ہوجاتا ہے) ۔۔۔
سیمانچل میں تقریباً پندرہ اسمبلی سیٹوں پر مسلمان اکثریت میں ہیں یا فیصلہ کن مرحلے میں ہیں، لیکن وہیں سب سے زیادہ کنفیوزن اور گو مگو کی استتھی ہے،
وہاں سب سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے، وہیں سے کسی بھی پارٹی کے لیے اقتدار کی گلیاروں تک پہنچنا آسان ہوگا۔۔۔ سیمانچل کے مسلمانوں کو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کیا چاہتے ہیں، میری رائے میں اگر کسی سیٹ پر مجلس کی جیت یقینی ہے اور سب کا اس پر اتفاق ہے تو وہاں مجلس کو ضرور جیت دلائیں، اگر وہ مجلس کا اہم ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کا بہترین ترجمانی کرنے والا ہے ، پہلے سیاسی شعور اور تجربہ رکھتا ہے پارٹی کی صدارت بھی کر رہا ہے ، تو ان کی جیت کو بھی یقینی بنائیں۔ لیکن اگر مجلس کو ووٹ دینے سے زعفرانی پارٹی کی جیت یقینی ہو تو پھر مہا گھٹبندھن کو یکطرفہ ووٹ دے کر کامیاب بنائیں۔۔۔ امید کہ اس فارمولے پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔۔۔۔۔
اس وقت ضرورت ہے کہ مسلمانان بہار موجودہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور سیاسی بصیرت کا استعمال کریں، اگر ہم یہاں اپنی حکومت نہیں بنا سکتے تو کیا ایسی پارٹیوں کو جیت نہیں دلا سکتے جو اگر چہ صحیح معنی میںسیکولر نہ ہو لیکن سیکولر کا لبادہ اوڑھ کر ہی سہی، کسی حد تک جمہوریت کی پاسداری کر سکے، اور کم از کم امن و شانتی اور بھائی چارے کی راہ ہموار کرسکے۔۔۔ مذھبی منافرت اور سماجی دوری کو پاٹ سکے اور مسموم فضا کو سازگار بنا سکے۔۔۔
نوٹ اس پیغام کو اہل بہار تک ضرور پہنچائیں، فیس بک اور تمام ذرائع کا استعمال کریں۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔