???? *صدائے دل ندائے وقت*????(997)
*جمو کشمیر: قید و بند کے ایک سال __!!*
*قید و بند، سسکیاں، چیخ و پکار، درد و آہ اور انسانیت سوز مظالم کی مدت ایک سال ہوگئی ہے، جس جمو کشمیر کو جنت نشان سمجھا جاتا ہے وہ جہنم کی لپٹ برداشت کرتا ہوا، وادیوں اور فضاؤں میں گرم ہواؤں کو سہتا ہوا، لہلہاتی ندیاں، روشن افق پر صحرائی خموشی اور تاریکی کو سمیٹتا ہوا ایک سال پورے کر چکا ہے، زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محرومی، اپنے پرائے اور ہم جولیوں کی دوری، زندگی کو زندگی لاتعلقی کے ایک سال مکمل ہوچکے ہیں، لیکن کہیں بھی ان مظلوموں کا تذکرہ نہیں ہے، چہار جانب سناٹا پسرا ہوا ہے، ٥/ اگست ٢٠١٩ کو بی جے پی کے وزیر داخلہ امت شاہ نے وہاں کا خاص درجہ ٣٧٠= اور ٣٥ (A) کو منسوخ کر کے نہ صرف ایک مستقل صوبے کو نقشے سے مٹادیا تھا؛ بلکہ اسے دو ٹیریٹری جمو کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا گیا، ساتھ ہی ساتھ وہ سات کمیشنس بھی ختم کردیئے گئے تھے جن سے صوبے کا اہم تعلق تھا، جس میں حقوق انسانی کمیشن، انفارمیشن کمیشن اور ریویمنس کمیشن شامل ہیں، نیز یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اب یہاں ترقی ہوگی، آتنک ختم ہوگا، معیشت درست ہوگی وغیرہ؛ مگر سینئر صحافی ونود دوا نے مختلف رپورٹس کو سامنے رکھتے ہوئے یہ اقرار کیا ہے کہ اگر ایک سال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ نہ کوئی ترقی ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی معاشی ترقی ہوئی ہے، بلکہ "کشمیر چیمبرس آف کامرس" کی ایک رپورٹ کے مطابق ٥/اگست سے ٢٠١٩ سے ٣/ دسمبر ٢٠١٩ کے بیچ صرف گھاٹی میں سترہ ہزار آٹھ سو اٹھتر کڑور کا نقصان ہوا تھا. جولائی ٢٠٢٠ میں ایک رپورٹ نکالی گئی جس کا نام ہے__ The impact of lock down on human right__ جو the form of human right__ کے معاشرتی تجزیہ نگاروں نے انجام دیا ہے، اس میں یہ کہا گیا ہے کہ دفعہ ٣٧٠ کے بعد اکانومی کو چالیس ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے.*
*بالخصوص جس ٹورزم کو بڑھاوا دینے کی بات کہی گئی تھی اور اس کے حق میں قصیدہ کہے گئے تھے، اس شعبہ میں نو ہزار ایک سو اکیانوے کڑور کا نقصان ہوا تھا، شرح کے اعتبار سے ٨٦/ فیصد کی کمی آئی ہے؛ کیونکہ ڈر اور خوف کے درمیان کوئی گھومنا نہیں چاہتا، کھلی فضاؤں، وادیوں اور گھاٹیوں پر بندش میں بھلا کیسا لطف؟ اسی لئے برطانوی ڈیلیگیشن ہی گھومنے گئے، انہیں سخت سکیورٹی اور تحفظات کے دوران قدرتی نظارے کا دیدار کروایا گیا؛ لیکن ان کے علاوہ کوئی دوسرا نہ جاسکا، یہ بھی بڑے شد ومد سے باور کرایا گیا تھا کہ کشمیری نوجوانوں کیلئے نوکری کی ریل پیل ہوجائے گی، وہاں کے نوجوان ایک نئی صبح کریں، مگر اس دوران ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد نوکریاں چلی گئیں، جن کے گھر چولہا جل رہا تھا وہ بھی بجھ گیا، نوجوانوں کے اندر مایوسی پیدا ہوئی، نوکری نہ ہونے کی وجہ سے گھر بار کی دشواریاں بڑھ گئیں، ایسے میں معاشی بحران کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، سیب کی کھیتی برباد ہوگئی، جھیل کے ذریعے کمائی کا موقع بھی کھو گیا، خاص طور پر جس دہشت گردی کو ختم کرنے کی بات کہی گئی تھی اور اسے ایک اہم ترین مدعا بنا کر پیش کیا گیا تھا، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اب تک ہوئے حملوں میں ایک سو پچاس لوگ مارے گئے ہیں، جس میں صرف سترہ پاکستانی تھے، اس سے صاف ہوتا ہے کہ کشمیر کے اپنے ہی ہتھیار اٹھا رہے ہیں، وہاں کی نسل بھڑک گئی ہے، وہ اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہے ہیں، جبکہ پاکستان سے آنے والے ضرور کم ہوئے ہیں؛ مگر خود کشمیری عوام ملک کے خلاف ہوگئی ہے، ماہرین مانتے ہیں کہ کشمیر میں جو غصہ پتھر بازی کے ذریعے نکل جایا کرتا تھا، اب وہی ناراضگی دلوں میں بیٹھ گئی ہے، جو دن بدن بڑھتی جاتی ہے.*
*بی بی سی ہندی نے ایک سالہ تحلیل و تجزیہ پیش کیا ہے، اس کے مطابق بھی کشمیر کی حالت پہلے سے کہیں بدتر ہوگئی ہے؛ حتی کہ تین لاکھ کی آبادی والا لداخ جو دو ضلعے کارگل اور لیہ پر مشتمل ہے، وہاں بھی عوام میں بے چینی ہے، وہاں کا ٹورزم بھی برباد ہوگیا، انڈیا اور چائنا کی مڈبھیڑ نے بھی سب کچھ ختم کردیا، نوجوان نوکریوں کیلئے ترس رہے ہیں؛ بلکہ وہ تو اب بھی اپنا ایک قانون اور روزگار کو لداخ کی حد تک محدود کرنے کی مانگ کر رہے ہیں، مگر اس سے کہیںم ابتر صورت جمو کشمیر کی ہے، وہاں تو ٤/اگست سے بی جے پی لیڈران کے علاوہ تمام سیاستدانوں کو Coustudy prevent کے تحت گرفتا کر لیا گیا تھا، جن کی تعداد تقریباً پانچ سو تک ہوتی ہے، جس میں نیشنل کانفرنس، پیپلس ڈیموکریٹک کے علاوہ کئی پارٹیاں شامل تھیں، پھر ان میں بہتوں پر public safety کی دفعہ لگا دی گئی تھی، جس میں دو سال تک کسی کو بنا کسی شنوائی کے گرفتار کیا جاسکتا ہے، ایک سال ہونے کے باوجود اب بھی کئی اعلی سیاست دان اپنے اپنے گھروں میں نظر بند ہیں، چوبیس گھنٹے پولس اور قانون کی ماتحتی میں رہتے ہیں. تو وہیں اب کشمیر میں سیاسی ہلچل ناپید ہوگئی ہے، وہاں کے سیاست دان اور ان کی جماعتیں ایسا محسوس کرتی ہیں؛ کہ ان کا وجود ہی مٹادیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ذیلی انتخابات میں اکثر و بیشتر اعلی سیاست دانوں نے اپنا نام الگ کر لیا ہے؛ کیونکہ وہ عوام کے درمیان جانے پر عار محسوس کرتے ہیں، وہ خود کو ٹھگا ہوا گردانتے ہیں، عوام بھی بھی انہیں کمتر نگاہ سے دیکھتی ہے.*
*اسی طرح کشمیر کے سارے اسکول و کالج اور یونیورسٹیز بند ہیں، چونکہ ٣٧٠ کی تنسیخ اور پھر کرونا وائرس کا قہر اور لاک ڈاؤن کے تسلسل نے ایک سال برباد کردیا ہے، اب وہاں کے بچے و نوجوان بنا تعلیم کے ہی آگے بڑھ رہے ہیں، تعلیمی سرگرمیاں ان کیلئے ناپید ہوگئی ہیں، جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں ٥/اگست سے ٢٥/ جنوری ٢٠٢٠ تک مکمل انٹرنیٹ بند تھا اور جب شروع بھی کیا گیا تو 2G رفتار دی گئی، ایسے میں آن لائن تعلیم کا تصور بھی مشکل ہے، نیز کشمیری نوجوان کیلئے روزگار کا مسئلہ یوں بھی سنگین ہوگیا کہ خبروں کے مطابق غیر کشمیریوں کو اہمیت دی جارہی ہے، وہاں کے مائینگ سیکٹر کے ٹھیکے بھی انہیں ٹھیکیداروں کو دئے جارہے ہیں، ایک دانشور کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ سرکار کی پالیسی یہ ہے کہ وہ کشمیریت ہی ختم کر دے، چنانچہ عوام بے روزگاری اور کام دھام نہ ہونے کی وجہ سے قرض لینے پر مجبور ہیں، اور یہ وہ قرض ہیں جنہیں پورا نہ کرنے پر ان کی زمینیں لی جائیں گی، انہیں در بدر کیا جائے گا، جاری آبادی کی شرح بڑھائی جائے گی، اور پورے خطے کا استحصال کیا جائے گا، بہر حال اتنا تو طے ہے کہ ایک سال کشمیر کیلئے مزید آفت ہی لیکر آیا ہے، وعدے صرف وعدے ہیں، حقیقت کچھ اور ہی ہے، ایک ایسی حقیقت جس میں مستقبل غیر یقینی اور متزلزل ہے، ان کی زندگی پانی کے بہاؤ پر بہہ رہی ہے، ان کی کشتی حیات ہوا کے بھروسے ہے، زمینی طاقت مفقود ہے، انسانوں کے ہاتھ باندھ دئے گئے ہیں، وہ مسجونین ہیں جن کا مقدر زعفرانی سیاست سے جڑ گیا ہے، مگر کسے معلوم اللہ تعالیٰ بےکسوں کی سن لے، وہ مظلوموں کی سنتا ہے، اس کی آواز کیلئے کوئی پردہ بھی نہیں ہے، یقیناً ہر شب ایک نئی صبح کی دلیل ہے، صبح ہوگی، سورج روشن ہوگا، بادل چھٹیں گے اور فضا بھی صاف ہوگی.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
06/08/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔