???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1168)
*جمہوریت پر تکیہ کرنے والے مسلمان!!!*
*مسلمانوں نے ایک عرصے سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر جمہوریت نہ ہوئی تو ان کا دین و ایمان محفوظ نہ رہ سکے گا، وہ مظلوم ہوجائیں گے، دنیا کی طاقتیں اور ظالموں کی تلواریں ان کے سروں پر مسلط ہوجائیں گی، ان کے گھروں کا امن، روح کی تسکین، اسلامیت کا شوق کافور ہوجائے گا، قرآن کی تلاوتیں، احادیث پر عمل اور دینی پہلوؤں پر پیش قدمی تھم جائے گی، اور شیاطین و دجالی افکار ان کے خاندانی و معاشرتی زندگی کو تہس نہس کردیں گے، خباثت، فحاشیت اور منکرات ان کے سروں پر منڈلانے لگیں گے، اور ان کا پرسنل لا، احوال شخصیہ چھن جائے گا، وہ رسوا اور ذلیل و خوار ہو کر کسی اندھیر میں پڑ جائیں گی، جہاں امید و یاس کی کوئی جوت انہیں نہ چھو سکے گی، دل کی سرد انگیٹھی اور ضمیر پژمردگی ان پر چھا جائے گی، آپ اکثر و بیشتر مساجد کی تقریروں اور ایک خاص ہیئت کے لوگوں کی بیان بازیوں میں یہ عنصر بڑی شدت و پرزور انداز میں پائیں گے؛ کہ جمہوریت کی حفاظت کرو! خود کو جمہوریت سے الگ مت کرو! ملک کی حالت دیکھو! قوم وملت کی پراگندگی کا خیال کرو! بالخصوص یہ کہ فاشزم کو شکست دینے اور باطل کو دندان شکن جواب دینے کیلئے جمہوری نظام ہی ایک آخری کڑی رہ گئی ہے! اگر ہم اس نظام کو نہ بچا سکے تو ملک و ملت یکساں طور پر سمندری بھنور میں پھنس کر رہ جائیں گے، اور انہیں گرداب سے نکالنے والا کوئی نہ ہوگا، وہ بار بار اور ہر بار یہ دہراتے نظر آئیں گے کہ اگر جمہوریت رخصت ہوگئی اور کسی ایک فکر و مزاج نے تسلط پالیا، تو ان کی زندگی اجیرن ہوجائے گی، فسطائیت کا رواج ہوگا جس میں انہیں کسی شئی کی آزادی نہ ہوگی، وہ حقوق انسانی اور حق زندگی سے بھی محروم ہوجائیں گے، یہ بھی سمجھایا جاتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے جس نظام کو مناسب سمجھا ہے وہ جمہوری نظام ہی ہے، ان اسلاف کی فکر اور طرز زندگی پر زندگی کی تمام نوک و پلک کو درست کرنا ہی اصل ہے، اگر اس سے سر مو انحراف کیا گیا اور وراثت میں ملی اس جمہوریت کو نہ بچا سکے تو پھر ہماری حفاظت صرف خام خیالی ہی بن کر رہ جائے گی، بعضوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اس سلسلے میں مظلوم بن کر مر جاؤ لیکن ملک کو بچانے اور اس کی نام نہاد جمہوریت کو تحفظ فراہم کرنے سے نہ چُوکو؛ اور خواہ کچھ بھی ہوجائے اپنے آپ کو جمہوریت کی رسی سے باندھ لو، اپنے ہاتھ پیر توڑ کر اسی دائرہ میں بٹھا لو، طوفان آیے، آندھی آئے یا تمہارا خیمہ اکھیڑ دیا جائے مگر تم جمہوریت کے اوطاق سے ٹس سے مس نہ ہونا!!!!*
*ملک کو آزاد ہوئے ستر سے زائد سال ہوگئے، جمہوریت کی دیوی نے تب سے اب تک مسلمانوں کو کیا دیا ہے؟ اس کا کوئی حساب دیدے تو بات بنے!! ان نادانوں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ جمہوریت ایک سیاسی نظام سے زیادہ کچھ نہیں ہے، وہ بھی ایک ایسا نظام ہے جس میں سروں کی گنتی ہوتی ہے، انہیں تولا نہیں جاتا، جس نے ان سروں میں اپنی فکر پھونک دی اور انہیں ورغلا دیا اب خواہ ان میں کچھ نہ ہو وہی اس نظام کا مائی باپ ہوگا، مجموعی طور پر اس نظام کو ابھی ڈھائی سو سال ہوئے ہوں گے؛ لیکن دنیا جانتی ہے اور ہر اہل دانش کو پتہ ہے کہ سب سے زیادہ خون ریزی اسی نظام کے تحت کی گئی ہے، دو عالمی جنگیں، ہیرو شیما، ناگاساکی جیسے متعدد واقعات اسی کی دَین ہیں، عالم عرب کی تباہی اور افغانستان سے لیکر ایران تک ویرانی کے ذمہ دار یہی لوگ تو ہیں، دنیا کو استعماریت اور تاناشاہی کا تحفہ دینے والے بھی یہی ہیں، جمہوریت کے ٹھیکیداروں نے زور اور طاقت کی بنیاد پر نظام عالم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، خودغرضی کا آئینہ لگا کر اور اپنی ایک خاص پہچان کو فوقیت دلانے کے چکر میں کشتوں کے پشتے لگا دئے؛ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہتھیار اور جنون کی اساس پر پوری دنیا کو ریوڑ کی طرح کھدیڑ دینے والے یہی لوگ ہیں، آج آنکھیں کھولئے اور دیکھئے کہ جمہوری نظام نے امریکہ اور اس کی ماتحتی میں رہنے والے ممالک کو کیا دیا ہے؟ اور پھر اس پر غور و خوض کرنے کے بعد مسلمانوں کی سالمیت ان کے ایمان اور للہیت پر توجہ دیجئے!! آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہر دور میں مسلمانوں نے اپنے ایمان اور تعلیمات اسلامیہ کو سینہ سے لگائے رکھا، تاریخی پہلوؤں میں تو بہت کچھ رکھا ہے آپ صرف موجودہ دور میں بالخصوص سو اور دو سو سال کی تاریخ کا ہی مطالعہ کر لیجیے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ جب یورپ میں مسلمانوں کو چیرا جارہا ہے، انہیں دیکھتے ہی قتل کیا جارہا تھا، ان کے مساجد ومدارس کو مسمار کیا جارہا ہے، ان کے علماء کو پھانسی دی جارہی تھی، قرآن کریم کے نسخے نذرآتش کئے جارہے تھے، نئی نسلوں کو زبردستی دین سے ہٹانے اور انہیں کرسچینٹی کو گلے لگانے پر مجبور کیا جارہا تھا، ٹھیک اس وقت بھی وہ غار، کھیت، و کھلیان اور کھوہ کے اندر اپنی نسلوں تک دین پہنچا رہے تھے اور اسلام کا درخت لہلہا رہا تھا، مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ کے سفر ناموں اور اسلام و نظام سیاست میں یہ باتیں درج ہیں، واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی کسل مندی اور بعض جمہوری نظام کی چمک یا کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی حکومت کی بنیاد سے تال میل کھانے پر مغالطون میں پڑ گئے اور اب ایک حیران کن فکر نے جنم لے لیا، ضرورت ہے کہ اسلامی حکومت کے خد وخال اور تاریخ عالم میں موجود نظام حکومت کا مطالعہ کیا جائے، ان شاء اللہ غلط فہمی کا کہرا صاف ہوجائے گا.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
24/01/2021
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔