جمہوریت پر لاشوں کا کھیل

✍ *صدائے دل ندائے وقت*????(830) *جمہوریت پر لاشوں کا کھیل __!!!*

*یہ سوچنا بھی کتنا عجیب ہے کہ جس جمہوریت کو جمہور عوام کیلئے منتخب کیا گیا تھا وہی ان کے سروں کو کاٹنے اور ان کے شیرازے کو بکھیرنے میں مصروف ہوجائے گی، جس سے فلاح و بہبود کی اسکیمیں نکلنی تھیں، جہاں ہر ایک کو تخت تک پہونچنے اور تخت پر بیٹھے ہوئے شخص سے سوال کرنے کا حق رکھنا تھا، بولنے، سمجھنے اور پوچھنے کی آزادی دینی تھی؛ لیکن وہ تاج پوش خود عوام سے سوالات کا جواب مانگیں گے_؟ جنہوں ووٹنگ کر کے انہیں تخت نشین پر بٹھایا اور دنیا کی سب سے عظیم جمہوریت کا محافظ قرار دیا وہی یہ پوچھے گا کہ بتاؤ تم کہا کے ہو_؟ جس کے ایک بٹن دبانے سے اس نے اقتدار کی کرسی پائی اب اسی سے اس بٹن کی قیمت وصول کی جائے گی_؟ اور یہ جانا جائے گا کہ کیا تم ہندوستان میں پیدا ہوئے اور پیدا ہوئے تو کب پیدا ہوئے__؟ جمہوریت میں ہر ایک کو بولنے، اعتراض کرنے اور اپنی مرضیات کا اظہار کرنے کا حق پونا تھا، اور آئینی اعتبار اسے یہ حق حاصل ہے؛ مگر اب تو یہاں تو سانس لینے کا بھی حق چھینا جارہا ہے، بےروزگاری، بےکار پن کے ساتھ بھی رہنے دینے کے روادار نہیں ہیں.* *چنانچہ NRC. CAA اور NPR کے ذریعے انہیں لائنوں میں کھڑا کر کے بے یار و مدد گار چھوڑنے کی تیاری ہے، بھیڑ کا ایک حصہ بناکر بھیڑ بکریوں کی طرح چلتے جانے اور خود کو ان میں گم. کرنے کی سازش ہے، آخر غور کیا جائے تو جمہوریت کی کونسی قدر بچتی ہے جو اس ملک کو جمہور ممالک میں شامل کیا جائے_ نہیں معلوم_!! قوم و ملت آپس میں ٹکرا دئے گئے ہیں، ہندو مسلم کی سیاست کے ذریعے نظام چلایا ملک کی راہ طے کی جارہی ہے، اب رائے دہندگی کی کوئی بات نہیں، سیاست ہی اصل ہے، انتخابات تو بس ذیلی عنوان ہے جسے انجام دے دیا جاتا ہے؛ لیکن اس کا سرکار بنانے سے کوئی تعلق نہیں ہے، اب نوٹوں کی گدیوں پر اور انسانوں کی لاشوں پر اپنا تاج سنوارا جاتا ہے، ابھی پورے ملک میں خانہ جنگی کی صورت حال ہے، عوام اور برسراقتدار کے درمیان کب تشدد شروع ہوجائے اور معصوموں کا سستا لہو بیا دیا جائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا. ہر کہیں ہندو مسلم ایک ہوریے ہیں اور سول ڈس اوبیڈنس کی تحریک چل پڑی ہے، ایسے میں خود سرکار اپیسی ریلیاں آرگنائزر کرنے جارہی ہے جو CAA اور NRC کے حق میں آواز اٹھائیں گے، یہ گویا ملک کو دو دھڑوں میں تقسیم کرنے کی تیاری ہے، اس سے یہ پیغام دیا جائے گا کہ ملک میں دو موٹی لکیریں کھنچی جا چکی ہیں.* *خود وزیر اعظم نے اس قانون کو لیکر یہاں تک کہہ دیا کہ "یہ وقت سانسد کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے، جو سانسد کے خلاف ہیں وہ گویا ملک کے خلاف ہیں، جبکہ انہین پاکستان کی اسکیموں اور اس کی پالیسیوں کے خلاف ہونا چاہئے"_ یقین کیجئے یہ زبان جمہوری ملک کے نمائندے کی نہیں ہوسکتی، جب ہر ایک کو ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کا حکم دیدیا جائے تو پھر کس بات کی جمہوریت __ اسی لئے ممبئی کی اعلی عدالت نے یہ کہہ دیا کہ جمہوریت میں اختلاف کرنے کو دیس مخالفت سے نہیں جوڑا جا سکتا_ اب غور کیجئے_!! جس جمہوریت میں اپنی رائے کے اظہار میں ٢٦/ سے زائد شہادتیں ہوچکی ہیں، انہیں یہ نصیحت کی جارہی ہے کہ وہ کس کے ساتھ کھڑے ہوں اور کس کے ساتھ کھڑے نہ ہوں_ حقیقت یہی ہے کہ اب جمہوریت کے معنی ہی انسانی حقوق کا قتل کر کے اپنی سیادت چمکانے میں ہے، کون جیتا اور کون مرتا ہے، اسے سرکار کو کوئی سروکار نہیں ہے، شاہین باغ دہلی میں ہر روز خواتین احتجاج کرتی ہیں، بچے، اور نادار کمزور ہر صنف کے لوگو موجود ہوتے ہیں، جنہیں گھروں کی چار دیواروں میں ہونا چاہئے تھا، جن کیلئے وقت تھا کہ زمانے کی تھکان کے ساتھ اب عمر کی اخیر سانس اپنی ارامگاہ میں لیں، وہ بھی وہاں موجود ہوتے ہیں، لیکن اب تک سرکاری عملہ میں سے کسی نے بھی ان کی خبر تک نہیں لی ہے_* *سپریم کورٹ اگرچہ مداخلت کر رہا ہے؛ مگر یہ مسئلہ اس کا ہے ہی نہیں، چنانچہ سپریم کورٹ نے اسے خود قبول کرتے ہوئے ثالثی کیلئے وکلاء کو بھیجا ہے، تو وہیں میڈیا کا کردار ہمیشہ کی طرح دوغلاپن کا رہا ہے، انہوں نے کوئی حقیقی کوریج نہیں دکھائی، سوائے NDTV کے اور دو چند سوشل پلیٹ فارم کے؛ جنہوں نے اپنی کالم میں اور ڈبیٹس میں خاص جگہ دی ہے، یہ دسمبر سخت سرد میں گزرا، جنوری نے ٹھنڈی کے سارے رکارڈ توڑ دئے، فروری بھی کچھ کم نہیں؛ لیکن کسی کی ہمت نہ ٹوٹی، اور نہ کسی نے شکوہ و شکایت کی_ مگر افسوس کا عالم یہی ہے کہ جس سرکار کو رفاہ عام کیلئے منتخب کیا گیا تھا، سب کا ساتھ سب کا وکاس جس کا نعرہ تھا، جنہیں جمہور کی حفاظت، آئین کی فوقیت اور انسانی دستوں کی بہتری کیلئے منتخب چنا گیا تھا، اسی نے ان کی شب و روز پر ڈاکہ مار دیا، ان کے سروں سے چھت چھین لینے اور انہیں ملک بدر کرنے کی تیاری کرلی ہے، انہوں نے یہ ڈھان لیا ہے؛ کہ اپنے مقصود کو بہر صورت انجام دینا ہے، امت شاہ نے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر ساری اپوزیشن پارٹیاں بھی ایک ہوجائیں تب بھی یہ قانون واپس نہ لیا جائے گا_ اس گھمنڈ و تکبر اور جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ_ کو دیکھ کر یہی دل کہتا ہے کہ یہ جرائم نہ تو اس سے پہلے قابل معافی تھے اور نہ آئندہ ہوں گے_ بس کچھ وقت کی دیری ہے، انقلاب آئے گا اور ضرور آئے گا۔*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*. Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 21/02/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔