*اورنگ زیب عالمگیر* کی بیٹی *زیب النساء* ایک بہترین شاعرہ تھی اور مخفی ان کا تخلص تھا،ایک بار اس کی سہیلی (کنیز و خادمہ) سے وہ آئینہ ٹوٹ گیا، جو ملک *چین* کا بنا ہوا تھا۔ اور یہ آئینہ زیب النساء کو بہت پسند تھا،سہیلی ڈری کہ خدا جانے کیا سزا دے، اس نے دست بستہ آکر یوں عرض کیا :*مخفیا آئینہ چینی شکست* *اے مخفی ! چین سے جو آئینہ آیا تھا وہ مجھ سے ٹوٹ گیا۔**زیب النساء* اس انداز معذرت پر بہت خوش ہوئ ،اسی وقت مصرع لگایا اور شعر مکمل کردیا ۔ اس نے اپنی سہیلی سے بھی زیادہ بہتر اور خوبصورت انداز میں کہا۔ :*خوب شد اسباب خود بینی شکست* بہت اچھا ہوا کہ خود بینی کا سامان غارت ہوگیا۔ اس طرح حسن کلامی اور شریں زبانی نے بڑی سزا معاف کرا دی ۔
*مشہور* کہاوت ہے کہ *زباں شریں ملک گیری* یعنی میٹھی زبان سے آدمی ملک فتح کرلیتا ہے اور حکومت و اقتدار پر وہ قابض ہوجاتا ہے ۔ اور اگر کسی سے یہ دولت چھن جائے اور زبان ترشی کا شکار ہوجائے تو حکومت و اقتدار سے ہاتھ دھونا بھی پڑ جاتا ہے تاریخ میں دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں ۔ اس لئے انسان کو بے سلیقہ بات کو بھی سلیقے سے کہنی چاہیے تاکہ کسی طرح منفی رد عمل سامنے نہ آئے اور ماحول مکدر نہ ہونے پائے *کلیم عاجز مرحوم* نے کیا پتے کی بات کہی ہے : کہ
*بات گر چہ بے سلیقہ ہو کلیم* *بات کہنے کا سلیقہ چاہیے**سلیمان خطیب* نے بھی اپنے اشعار میں کیا خوب حقیقت کی ترجمانی کی ہے : کہتے ہیں :
*بات ہیرا ہے بات موٹی ہے**بات لاکھوں کی لاج کھوتی ہے*
*بات پھولوں کا باغ ہوتی ہے**بات سینہ کا داغ ہوتی ہے*
*بات خیر و ثواب ہوتی ہے* *بات قہر و عذاب ہوتی ہے*
*بات برگ گلاب ہوتی ہے* *بات تیغ عتاب ہوتی ہے*
*بات کہتے ہیں رب ارنی کو* *بات ام الکتاب ہوتی ہے*
*بات ہر بات کو نہیں کہتے* *بات مشکل سے بات ہوتی ہے* *اللہ تعالٰی* نے اپنے رسول *محمد صلی اللہ علیہ وسلم* کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کو زبان کا استعمال سلیقہ سے کرنے اور اچھی بات کرنے کی تاکید کریں ۔ کیوں کہ شیطان انسانوں کے درمیان جو لڑائی جھگڑے کراتا ہے ، وہ انسان کی زبان کو ہی ذریعہ بناتا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے یہ حکم دے کر انسانوں کو ایک اہم اور انتہائی ضروری سماجی اور اخلاقی مسئلہ کی طرف متوجہ کیا ہے جس سے عموما آج کا انسانی معاشرہ غافل ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے نبی کو مخاطب کرکے فرمایا : *و قل لعبادی یقولوا التی ھی احسن ان الشیطان ینزغ بینھم ،ان الشیطان کان للانسان عدوا مبینا* (بنی اسرائیل ۔۵۳) اور اے محمد ! میرے بندوں سے کہہ دو کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہتر ہو ۔ دراصل یہ شیطان ہے جو ان کے درمیان پھوٹ ڈالتا ہے ۔ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے ۔ *زبان انسان کے جسم کا ایک چھوٹا سا عضو ہے۔ یہ دیکھنے میں تو گوشت کا معمولی ٹکڑا ہے۔ مگر بے حد اہم، بہت نرالا، اس کام بنتے بھی ہیں، اور بگڑتے بھی ہیں، اسی سے انسان نیک نام بھی ہوتا ہے اور اسی سے بدنام بھی۔ اسی سے نیکو کار بھی، اسی سے گنہگار بھی۔ اسی سے خدا کا قریبی بھی، اسی سے خدا کا باغی بھی، اسی سے مومن بھی، اسی سے کافر بھی، اسی سے سب کا دلارا و چہیتا بھی، اسی سے سب سے دور ➖سب کے لیے قابل نفرت بھی، زبان ہی سے ادمی معاشرہ، اور سوسائٹی میں مقام و مرتبہ پاتا ہے اور اسی سے نگاہوں سے گرتا بھی ہے۔ اسی سے لوگوں کی انکھوں کا تارا بن جاتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں کھٹکنے بھی لگتا ہے، ایک زبان اس کے ہزاروں کام۔ جیسے ہلاءی اور حرکت دی وہی نتیجہ برآمد ہوا۔ زبان سے جھگڑے مٹاءیے بھی جاتے ہیں اور پیدا بھی کیے جاتے ہیں۔ اسی سے دوست بناءیے جاتے ہیں اور دشمن بھی، اسی زبان سے ادمی توحید و شہادت کا اعتراف کرتا ہے اور اسی سے کفر و شرک بھی بکتا ہے*۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کا ارشاد گرامی ہے :جب صبح ہوتی ہے تو انسان کے سارے اعضاء خوشامد کرتے ہوئے زبان سے بہت عاجزی کے ساتھ کہتے ہیں، دیکھ ہمارے معاملہ میں اللہ سے ڈرنا، ہم تمہارے تابع ہیں اگر تم ٹھیک رہیں تو ہم بھی ٹھیک رہیں گے اور اگر تم نے کج روی اختیار کی اور ٹھیری رہیں تو ہم پر بھی مصیبت آجاءے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بعض اوقات بندہ ایسی بات زبان پر لاتا ہے جس کے نتیجہ پر وہ غور نہیں کرتا اور اس کی وجہ سے وہ پھسل کر دوزخ میں جا پڑتا ہے حالانکہ وہ اس سے اتنی دور ➖ ہوجاتا ہے جتنی دوری مشرق و مغرب کے درمیان پاءی جاتی ہے۔( بخاری شریف) علماء نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے: *زبان سے نازیبا اور ناپسندیدہ بات کہنے میں کوئی وقت نہیں لگتا لیکن آدمی خدا کی نگاہ سے گرجاتا ہے اور وہ قعر جہنم میں گرجاتا ہے۔ یہ لغزش کوئی معمولی نہیں ہوتی۔ اس سے ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا میں انسان کی پوزیشن کتنی نازک ہے۔ ذرا سی غفلت اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ انسان کو خدا نے جو عزت عطا کی ہے۔ اس کا فطری تقاضا ہے کہ وہ ایسا کوئی کام نہ کرے حتیٰ کہ وہ اپنی زبان پر ایسی بات لانے کا بھی روا دار نہ ہو جو اس کے شایان شان نہ ہو۔ اگر وہ اس معاملہ میں بے پرواہی سے کام لیتا ہے تو اس سے خود اس کی ذات کو نقصان پہنچتا ہے۔ خواہ اسے اس کا شعور و احساس ہو یا نہ ہو۔ یہ بے شعوری خود ایک سنگین قسم کا جرم ہے جسے حقیقت نظر انداز نہیں کرسکتی۔ یاد رہے کہ قدم کا پھسلنا اتنا زیادہ اندیشہ ناک نہیں ہوتا جتنا زبان کا پھسلنا آدمی کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے۔ قدم کے پھسلنے سے آدمی زمین* ???? *پر گر سکتا ہے۔ اسے جسمانی چوٹ آسکتی ہے لیکن زبان کی لغزش آدمی کی شخصیت کو مجروح کر دیتی ہے اور ہم کسی کے لیے اس سے بڑے کسی نقصان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔*( کلام نبوت ٢/ ٣٨٣) لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمہ شما کو تو جانے دیجئے بعض حضرات ،جن کو اپنی زبان دانی کا دعویٰ ہے، علو نسب کے ساتھ اپنی زبان و تہذیب اور شرافت پر فخر و ناز ہے ان کی تحریر و تقریر میں جو زبان؛ الفاظ اور تعبیرات استعمال ہو رہے ہیں اور جس انداز سے وہ اپنی تحریر و تقریر میں اسلوب اور لہجہ استعمال کر رہے ہیں ، وہ انتہائی سطحی اور غیر معیاری ہے، جو تہذیب و شاءستگی سے کوسوں دور ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہ جب فریق مخالف کا نام لیتے ہیں تو لاحقہ اور سابقہ بھی نہیں لگاتے یعنی صاحب۔ مولوی۔ مولانا ، تک نام کے ساتھ نہیں لگاتے اور کسی کی رد یا نقد پر کتاب لکھتے ہیں یا تحریری یا تقریری بیان جاری کرتے ہیں تو کتاب کے نام ہی سے اور بیان و تقریر کے اسلوب اور لہجہ، ہی سے نفرت، حسد اور تعصب و تنگ نظری کی بو آتی ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ ان کے مدحان اور پرستاران ان کے اس عیب و نقص کو ہنر اور اسلوب کا نام دیتے ہیں۔اس لیے ہم سب کو محاسبہ اور غور و فکر کرنا ہے کہ کہیں زبان کے معاملہ میں ہماری یہ بے احتیاطی عند الله گرفت اور پکڑ کا ذریعہ اور وجہ نہ بن جایے اور ہم دنیا و آخرت میں ناکام و نامراد نہ ہوجاءیں۔ اس لیے ہم سب کو اس پہلو سے ہر طرح سے سوچنا ہے اور زبان کے معاملہ میں بہت محتاط رہنا ہے۔ خدا کرے یہ باتیں ہماری سمجھ میں آجائے اور ہم اس پر عمل کرنا شروع کردیں۔ آمین یا رب العالمین۔