???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1016)
*حسینیت اور مظلومیت کا تسلسل باقی ہے.*
*اگر انبیاء علیہم السلام کی مقدس ذات کو مستثنیٰ کردیا جائے، تو تاریخ اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ جو بر بریت کی گئی اس کا کوئی ثانی نہیں؛ بالخصوص نواسائے رسول اللہ ﷺ حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر ظلم و قہر کے جو پہاڑ تورے گئے، بےدردی کی جو انتہا کی گئی، خاص طور پر اپنوں کے ہاتھوں ہی دست درازی، منافقت، چالبازی، عیاری اور قتل و غارت گری کی جو مثال پیش کی گئی، اس جیسی خطرناک مظلومانہ داستان سے تاریخ ناواقف ہے، ایک وہ حسین جو بے گناہ تھے، حق پر تھے، اسلام کی اولیت چاہتے تھے، سنت رسول ﷺ کی بحالی کے متمنی تھے، خلافت کو ملوکیت میں بدل جانے اور اسلامی نظام حکمرانی کی جان نکال دینے کے خلاف تھے، اعلائے کلۃ اللہ کے دلدادہ تھے، فاشزم کے خلاف اور طاغوتی طاقتوں، عہدوں کے ماروں اور تخت و تاج کے نشہ میں چور افراد کا شکار تھے، ان کو دھوکہ دیا گیا، شیطانی حربہ میں پھنسایا گیا، اپنوں کے ساتھ لڑوایا گیا، ان کے منہ سے نوالے چھینے گئے، جسموں کو چھلنی چھلنی کیا گیا، تیر و نشتر مارے گئے، ان کے قریب رہنے والی ہر جان کو موت کی نیند سلادیا گیا، وہ معصوم بھی قتل کر دئے گئے جو جانتے بھی نہ تھے؛ کہ قتل کیا ہوتا ہے، جنہوں نے زندگی کی صبح ابھی تک صحیح سے نہیں دیکھی تھی، ان کی ایک نسل کو کچلا گیا، مارا گیا، ان کے سروں کو نیزوں پر اچھالا گیا، تشتریوں پر سجایا گیا، خانوادہ رسول (ﷺ) ہونے کے باوجود کوئی رعایت نہ کی گئی، نبی مکرم (ﷺ) کا جگر گوشہ ہونے، سرورِ کائنات کے شانہ مبارک پر کھیلنے اور ان کے دہن اقدس سے نوالہ کھانے، ان کی گود میں پلنے، پروان چڑھنے کا بھی خیال نہ کیا گیا، چوطرفہ گھیرا گیا، بیابان میں جمع کیا گیا، پانی بند، کھانا بند اور صرف سر پر تلوار کی نوک رہ گئی، وہ سب کچھ کیا جو ظلم کے طور پر کیا جا سکتا تھا؛ بلکہ اس سے بڑھ کیا اور ایسا کیا کہ تاریخ ان پر اشکبار رہے گی، آسمان روتا رہے گا اور زمین کانپتی رہے گی.*
*ایسا نہیں ہے کہ مظلومیت کی یہ تاریخ نواسہ رسول (ﷺ) کے ساتھ ہی ختم. ہوگئی ہو؛ بلکہ حسینیت حق کا علم اور اس کی راہ میں سرکٹادینے کی تعبیر بن گیا، باطل کے سامنے اس کی موجودگی لازم ہوگئی، شاید ہی کوئی صدی ہو جس میں حسینیت کا قصہ نہ دہرایا گیا ہو، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام کے بعد ہر باطل کو حسینی خون اور حسینیت کے علمبردار سے ڈر لگتا تھا، چنانچہ پچھلی صدیوں میں جو کوئی بادشاہ بنتا وہ سب سے پہلے اپنی رعایا میں حسینی خون کو ٹھنڈا کرنے کوشش کرتا تھا، اگر کوئی خانقاہ میں بھی ہو تب بھی اسے کھینچ کر تختہ دار لے آیا جاتا تھا، اگر کوئی دشواری پیش آئے تو اس کیلئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے تھے؛ تو سونے کی چین گلے میں ڈال دی جاتی تھی، تقدس کا خاکہ ان کے اردگرد جمع کردیا جاتا تھا، یا ایسے مریدین کی بھرمار کردی جاتی تھی جو صرف ہاں میں ہاں ملائیں، ان کے پاک نسب کو عالی سمجھ کر ان کے سامنے جھک جائیں، اور اگر اس سے کام نہ چلتا ہو تو پیروں میں زنجیر بھی ڈال دی جاتی تھی، قید وبند کی سزائیں دی جاتی تھیں، تلوار کی چمک اور تیزی سے کام لیا جاتا تھا، تب بھی ان کے سر سے جہاد و جذبہ اور شوق دین کا کچھ نہ کرہاتے، اور یہی حسینیت ان کے گلے کی ہڈی بن جاتی تھی.*
*اگر تاریخی صفحات کی گزارشات پر یقین نہ آئے تو آج بھی حسینیت کو سینے سے لگانے والے اور حق کی صدا بلند کرنے والے، باطل نظام اور ظالموں کی مخالفت کرنے والے افراد کو دیکھ لیجئے! جس کسی نے انسانیت کو اونچا کرنے کی کوشش کی ہے، جو بھی ناحق سسٹم کو چیلینج کرتا ہے وہ پس زنداں پھینک دیا جاتا ہے، اس کی زندگی اجیرن کردی جاتی ہے، ناصبیت، منافقت اور یزیدیت کے متوالے بغلیں بجاتے ہیں، اپنی کامیابی کے گن گاتے ہیں، جو بھی ہو یہ جان لینا چاہئے کہ اسلام کا محافظ خدا ہے، چنانچہ اس سے متعلق ہر چیز کی حفاظت خدا کے ذمے ہے، علماء، ادارے اور تمام محسنین خدا کے حفظ و امان میں ہیں، رہے وہ منافق تو وہ کل بھی رسوا تھے اور آج بھی رسوا ہوں گے، وہ خواہ تخت نشین بن جائیں، اعلی مناصب پر براجمان ہوجائیں؛ لیکن دلوں پر راج اسی حسینیت کا ہوگا، اہل نظر جانتے ہیں کہ تاریخ اپنے ان جیالوں کو فراموش نہیں کرتی، خواہ وقت انہیں تنہا کردے، اپنے پرائے بن جائیں، حالات طوفان بن جائیں، مصائب بجلی گرے اور ہر شئی خاکستر کر جائے، مگر تاریخ ان کے حق مین رطب اللسان رہتی ہے، وہ حیات جاوداں پالیتے ہیں، ذرا دیکھئے! ان تاریخی شخصیات کو وہ کون ہیں؟ ان میں عموما وہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں قرار نہ پایا، جو ہمیشہ معتوب اور مقہور بنے رہے؛ لیکن کوئی بتائے ان ظالموں کو کون یاد کرتا ہے؟ کون ان کا تذکرہ کرتا ہے؟ کوئی نہیں_ بالکل نہیں_!!!*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
25/08/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔