حقائق اور غلط فہمیاں
(۱ )
*محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*آر ایس ایس* کی طرف سے وقفہ وقفہ سے یہ بات سامنے آتی رہتی ہے کہ ہندوستان کے سارے باشندے ہندو ہیں ,اور ان سب کی تہذیب ہندتو ہے ، سب ہندو دیو مالائی تہذیب کے پرستار ہیں، اس سلسلہ میں راقم کی ایک تحریر پہلے بھی آچکی ہے،کچھ باتیں رہ گئی تھیں ،آج اسی مضمون کو مکمل کرنے کی کوشش کروں گا ۔ تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں، اور حقائق سامنے آئیں اور ہم جان سکیں کہ لفظ *ہندو* اور *ہندوستانی* کی حقیقت کیا ہے ؟،اور اس مذہب کی بنیاد اور اصل کیا ہے؟۔ قارئین باتمکین سے یہ بھی التماس اور عرض ہے، کہ اگر کسی پہلو کو بیان کرنے میں کچھ کمی رہ جائے تو اس جانب اشارہ فرمائیں گے ۔ *آپ صلی اللہ علیہ وسلم* کو چالیس سال کے بعد نبوت ملی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےجب خدا کے حکم سے فریضہ رسالت ادا کرنا شروع کر دیا تو مشرکین مکہ سمجھے کہ یہ وقتی جوش و جذبہ ہے، یہ دین اور دعوت خود بخود مر جائےگی اور ختم ہوجائے گی، لیکن جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ دین اسلام تو دن بدن مضبوط ہوتا جارہا ہے اور اس دین کے متبعین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس کی خوشبو مسلسل پھیل رہی ہے، تو ان لوگوں نے دین حق کے چراغ کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور اہل ایمان کو ہر طرح سے ستایا اور اس مذہب سے لوگوں کو نکالنے اور دور رہنےکی پوری کوشش کی، لیکن جب اس مہم میں وہ ناکام و نامراد ہوگئے تو انہوں نے صلح اور سمجوتہ کا کوئ راستہ تلاش کرنا چاہا ۔ سیرت کی کتابوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ اس سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو فارمولے پیش کئے گئے ایک فارمولہ یہ تھا ،کہ ہم سب لوگ جس میں آپ بھی شامل ہوں،ہماری دیوی دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کریں اور ایک دن یا ایک سال سب کے سب آپ کے خدا کی پوجا کرلیا کریں ۔دوسری صورت یہ ہے کہ روزانہ ہم دونوں مل کر آپ کے معبود کی بھی عبادت کریں اور ہمارے معبودوں کی بھی،اس طرح دونوں کے معبودوں کی پوجا ہوجائے اور جھگڑا ختم ہوجائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اس بارے میں اللہ تعالی کی طرف سے، حکم اور فیصلہ کر انتظار کرنے لگے، اسی موقع پر سورہ کافرون نازل ہوئی ۔ جس میں یہ وضاحت آگئی کہ توحید اور شرک ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ۔ اس لئے یہ کسی طور بھی ممکن نہیں کہ مسلمان تمہاری دیویوں اور دیوتاؤں کی پوجا کریں ،جن کو وہ عبادت کے کسی طرح لائق نہیں سمجھتے ہیں ۔ قرآن مجید نے اس کے مقابلہ میں صلح کی ایک شکل اور راستہ نکالا کہ ہر آدمی کو اپنے مذہب پر قائم رہنے اور اپنے دین و عقیدہ کے مطابق عمل کرنے کا اختیار ہو اور دوسرے کے عمل میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ *لکم دینکم ولی دین* سے اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے ۔ تقریبا اسی سے ملتا جلتا فارمولا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں اختیار کیا ۔ یہودیوں کے یہاں تین بڑے خاندان اور قبیلے تھے مدینہ کے آس پاس اکا دکا مشرکین بھی تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قبیلوں کے ساتھ مل کر ایک معاہدہ کیا، جس کو *میثاق مدینہ* کے نام سے جانا جاتا ہے اس معاہدہ اور پیکٹ میں درسایا گیا تھا اور یہ عہد کیا گیا تھا، اور تمام قبائل کے سرداروں سے دستخط لیا گیا تھا اور اس بات کی گارنٹی اور ضمانت لی گئی تھی کہ تمام لوگ بقاء باہم کے اصول پر زندگی گزاریں گے ۔ ہر مذھب کے ماننے والوں کو ان کے مذہب پر چلنے کی آزادی ہوگی۔ اور اگر باہر سے آکر کوئی دشمن حملہ آور ہو تو سب ملکر مدینہ کا دفاع کریں گے ۔ ہمارے بعض قارئین ہیں جن کا سیرت کا مطالعہ کم ہے، اگر ان کے سامنے اس طرح کی باتیں رکھی جاتی ہیں تو وہ غصہ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام نے کافروں کے ساتھ اس طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔ اگر بعض مخصوص حالات اور مجبوری میں اسلامی اصطلاح نہ سمجھ کر بھی جمہوریت اور سیکولرزم کی بات کی جاتی ہے تو اس کو فورا نکارتے ہیں اور اس پر برہم ہوتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ ان اصطلاحات کا اسلام سے کوئی جوڑ نہیں ہے ،اسلام میں تو صاف صاف کہہ دیا گیا ہے ان الحکم الا للہ ۔ لیکن مجبوری میں جمہوریت اور سیکولرذم جیسی اصطلاحات کی تائید کی جاتی ہے جہاں اسلامی حکومت نہیں ہوتی۔ اس میں شک نہیں کہ ایک ایسا سماج اور ایک ایسی سوسائٹی جس میں مختلف مذاہب اور مختلف تہذیبوں رنگوں اور نسلوں اور زبانوں کے لوگ رہتے ہیں وہاں اس سے بہتر اور قابل قبول کوئی اور راستہ اور فارمولہ نہیں ہوسکتا، وہاں اسی فارمولے پر عمل کرنا مجبوری ہوتی ہے ۔ ایسے ملکوں میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اصولوں اور فارمولوں کے مطابق اپنے مذہب اور شریعت کے مطابق عمل کریں اور دعوت وتبلیغ کے ذریعہ احیاء دین اور غلبئہ اسلام کی کوشش کرتے رہیں اور یہ کوشش صرف رسمی نہ ہو بلکہ پورے اخلاص جذبہ اور حوصلہ کے ساتھ اس کے لئے کام کرتے رہیں ۔ ملک عزیز ہندوستان میں بھی آزادی کے بعد جب یہاں کا آئین اور دستور بنانے کا کام شروع ہوا تو ان ہی اصولوں پر اس ملک کا ائین و دستور مرتب کیا گیا اور یہاں کا آئین ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں ہر رنگ کے پھول موجود ہیں اور یہ تنوع اور رنگا رنگی ہی اس آئین کا اصل حسن ہے ۔ اسی سے ہندوستان کی دوسری جگہوں پر پہچان ہے ۔ اس آئین کے تحت اکثریت اور اقلیت کے تمام گروہوں کے وجود اور حیثیت کو تسلیم کیا ہے ۔انہیں مذھبی اور تہذیبی آزادی حاصل ہے ۔ نہ کسی مذھب کو کسی پر مسلط کیا جائے گا اور نہ تہذیب اور زبان کو ۔ ہندوستان میں تقریبا آٹھ سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی ۔ وہ حکومتیں شاہی انداز کی تھیں اگر وہ مسلمان حکمراں چاہتے تو پورے ملک میں ایک تہذیب اور ایک زبان نافذ کردیتے اور کوئی ان کو روک نہیں پاتا ۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہی اپنایا اور ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب اور عقیدہ پر عمل کرنے کی آزادی دی، اپنی زبان بولنے لکھنے کی آزادی دی، اور مذھبی رواداری کا ایسا خیال رکھا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔(مستفاد از کتاب متاع فکر و نظر از مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی) لیکن افسوس کہ آزادی کے وقت اور اس پہلے بھی ایک قوم دشمن تحریک یہاں پنپتی رہی جس نے پس پردہ انگریزوں کی مدد کی ،اور جن کا مقصد یہ تھا کہ اس ملک کو آزادی کے بعد ہندو راشٹر بنانا ہے وہ جماعت ہمیشہ سرگرم رہی ،اور ملک کے مفاد کے خلاف کام کرتی رہی ۔ اس پر لگام نہیں کسا گیا اور اگر کبھی کسا بھی گیا تو وقتی طور پر، پھر اس کو آزاد چھوڑ دیا گیا اور کوئی مضبوط شکنجہ نہیں کسا گیا ۔ کانگریس کی سرد مہری کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے اور خود اپنی زندگی کو ثابت کرنے کے لئے اس کو جان ٹوڑ محنت کرنی پڑ رہی ۔ آگ کھانے کا نتیجہ انگارے کی شکل میں نکل رہا ہے ۔ اس فاشسٹ تنظیم کا پورا تانا بانا اسرائیل سے جڑا ہوا ہے اور اسی اسرائیلی آقا کے فرمان کے مطابق مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے ہمیشہ برسرپیکار رہتی ہے ۔ ابھی پچھلے دنوں آر ایس ایس پرمکھ کا ایک بار پھر بیان آیا ہے کہ سارے ہندوستانی ہندو ہیں اور ان سب کی تہذیب ایک ہے اور وہ ہندتو ہے۔ سب پہلے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ لفظ *ہندو* کی حقیقت کیا ہے ؟ معنوی اعتبار سے کیا یہ لفظ قابل احترام ہے؟ لفظ *ہندو* کے بارے میں اب تک کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی گئی ہے اور *ہندو* اصطلاح کی کوئ جامع تعریف نہیں ہوسکی ہے ۔ اس لفظ کے بارے میں جو باتیں کہی جاتی ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ *ہندو* کے اصل معنی غلام کے ہیں، آرین جب اس ملک میں آئے تو انہوں نے یہاں کے لوگوں کو غلام بنا لیا۔ اور بطور تحقیر ان کا نام ہندو رکھا،ایک خیال یہ بھی ہے کہ ہند کے معنی فارسی زبان میں تل کے ہوتے ہیں جو سیاہ ہوتا ہے ،اسی طرح ہندوئے چرخ اس سیارہ کو کہتے ہیں جو سیاہ رنگ کا ہوتا ہے ۔ آرین ایران کی طرف سے آئے تھے ان کا رنگ وروپ کھلا ہوا اور گورا تھا اور اس خطہ کے مقامی لوگ کالے رنگ کے تھے ،اس لئے انہوں نے یہاں کے مقامی باشندوں کو *ہندو* کا نام دے دیا ،غرض کہ یہ آریہ لوگوں کا دیا ہوا نام ہے ۔ اور اس میں تعظیم و احترام کے بجائے تحقیر و اہانت کا پہلو ہے اور یہ حقیقت ہے کہ جب کوئی نام کسی اور مفہوم و معنی کے ساتھ مشہور ہوجاتا ہے تو اصل پس منظر سے نگاہ اور توجہ ہٹ جاتی ہے، اور لوگ معروف و مشہور معنی کو لے لیتے ہیں اور اصل مفہوم اور مراد کو بھول جاتے ہیں ۔ اصل مفہوم اور معنی کے اعتبار سے دیکھا جائے لفظ ہندو سے کسی قوم یا ملک کے باشندوں کو موسوم کرنا عجیب سا لگتا ہے ۔ ( مستفاد از کتاب متاع فکر و نظر صفحہ ۳۶۰) ( *باقی کل کے پیغام میں ملاحظہ فرمائیں* )
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔