حقائق اور غلط فہمیاں
(۲ ) *محمد قمرالزماں ندوی* *مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*مذھب* فرد، سماج و معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت کرتا ہے ۔ ایک بامقصد اور نفع بخش زندگی گزارنے کا شعور بخشتا ہے ۔ دنیا اور آخرت کے لئے ایک باقاعدہ نظام اور مرتب لائحہ عمل پیش کرتا ہے ۔ صحیح و غلط، خیر و شر، نیک و بد کی تمیز اور شعور کو جلا بخشتا ہے اور بقول شخصے : *مذھب ،انسان اور اس کے سماج کے لئے سمندری جہاز کے قطب نما کی مانند ہے۔ اگر مذھب کا وجود نہ ہوگا، تو انسان اس سمندری گرداب اور موج میں غوطہ کھاتا رہے گا، اور کبھی نجات کے ساحل پر نہیں پہنچے گا* ۔ *مذھب* ہی کی وجہ سے تہذیبیں وجود میں آتی ہیں زبان و ادب علم و عمل یہ سب مذھب کے وجود سے پھلتے پھولتے ہیں ۔ آج دنیا میں زندگی گزارنے کے لئے بقاء باہم کے اصول و قوانین طے کئے گئے ہیں، تہذیبی ٹکراؤ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کی بنا پر ایک تمدن کو دوسرے تمدن پر فوقیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مذھبی مقاصد اور اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے دوسرے مذاہب سے خواہ قریب ہوں یا دور ہوں طرفین کو ایک دوسرے کی حیثیت کا بہر حال احترام کرنا ہوگا ۔ اس لئے علوم مذاہب کا مطالعہ وقت کی ایک ضرورت اور حقیقت بن چکا ہے ۔ اور یہ مطالعہ موجودہ دور کے حالات میں رواداری و سلامتی، افہام و تفہیم امن وشانتی کا بہترین ذریعہ بن سکتا ہے ۔ کل راقم نے *حقائق اور غلط فہمیاں* اس عنوان سے ہندو اور ہندوستانی کی حقیقت پر تجزیہ پیش کیا تھا ،اس سلسلہ کی بعض اور کڑیاں آپ قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں تاکہ حقیقت حال سامنے آئے اور شکوک و شبہات کا ازالہ ہو ۔ہندو مت کا تعارف اور اس کی حقیقت سے آگاہی ہو ۔ *م ق ن* *آئین و دستور* کے مرتب کرنے والوں نے اس ملک کو *بھارت* کا نام دیا ، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملک کے ہر باشندے کو بھارتی کہنے کا جواز ہے ،لیکن ہر بھارتی کو ہندو کہا جائے اس کا جواز کیوں کر ہوسکتا ہے؟ مسلمانوں نے اس ملک کو *ہندوستان* کا نام دیا ،اس پس منظر کو جاننا بھی ضروری ہے ،مسلمان جب اس ملک میں آئے تو یہ پورا خطہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور راجواڑوں میں منقسم تھا ۔ مسلمانوں نے اس خطہ کو وسیع شکل دیا ۔اس کے زمینی حدود اور رقبہ کو وسیع کیا ۔ چونکہ یہاں کے زیادہ تر باشندے اپنے آپ کو ہندو کہتے تھے اس لئے مسلم حکمرانوں نے اس ملک کو ہندوستان کا نام دیا ۔ یہ مسلمانوں کی انصاف اور عدل پروری کی بات تھی کہ انہوں نے اپنے مذہب اور ثقافت سے موسوم کرنے کے بجائے یہاں کے اکثریتی طبقہ کا لحاظ رکھا ۔ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہاں کہ ہر باشندے کو ہندوستانی کہنا سب سے زیادہ بہتر ہوگا ۔ نہ کہ ہندو،انگلینڈ اور جرمنی میں قدیم میں سب ایک ہی نسل کے تھے ،اس لیے ان کی نسبت کا خیال اور لحاظ کرتے ہوئے انہیں انگریز اور جرمن کہا گیا ۔ لیکن ہندوستان کو اس پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ،یہاں کی نوعیت وہاں سے الگ ہے ،ہر رنگ نسل اور زبان کے لوگ یہاں آباد ہیں، اس لئے ان کو ایسے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے، جس کی نسبت مقام کی طرف ہو، نہ کہ مذھب یا رنگ و نسل اور زبان و کلچر کی طرف ۔ ( مستفاد از کتاب متاع فکر و نظر صفحہ ۳۶۱) یہاں پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ *ہندوستان* کے آئین و دستور، ہندوستانی عدلیہ اور لوگوں کے موجودہ عرف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو *ہندو* لفظ نہ کسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے، نہ علاقہ اور مذھب کی ،ان کی مذہبی کتابوں میں بھی مذہب کی حیثیت سے *ہندو* لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے، بلکہ ہندوستان کے قدیم دھرم کو *ویدک دھرم* کہا جاتا تھا ۔یعنی ایسا دھرم جس کی بنیاد *ویدوں* کی تعلیمات پر ہیں ،*ویدوں* کی تعلیم کو دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ *ویدک دھرم* کی بنیاد *عقیدئہ توحید* پر تھی ۔ *ویدوں* میں ہزار تغیر اور تبدیلی کے بعد بھی *توحید* کی تعلیم اور پیارے *نبی* (صلی اللہ علیہ وسلم )کا آخری رشی منی ہونا ثابت ہوتا ہے ۔ *ویدوں* میں توحید و رسالت اور عقیدہ آخرت کا تذکرہ موجود ہے ۔ وید میں سیکڑوں اقتباسات موجود ہیں ، جس سے توحید و رسالت اور آخرت کی تعلیم کی تفصیلات ملتی ہیں ۔ صرف ایک دو اقتباس ملاحظہ فرمائیں ۔ *پنڈت دیانند سرسوتی* نے اپنی کتاب *ستیارتھ پرکاش* میں اس کو نقل کیا ہے ۔ *وہ (خدا ) محیط ،پاک اور جسم سے خالی ہے ۔( یجروید ) میں خدا افضل ترین قوت و نعمت کا منبع ہوں ،سورج کی طرح تمام عالم کو منور کرتا ہوں ،نہ میں کبھی مغلوب ہوتا ہوں،اور نہ مرتا ہوں ،یہ تمام عالم جو نعمتوں کا مخزن ہے،اس کا خالق میں ہوں ،تم مجھے ہی اس دنیا کا خالق اور مبدا سمجھو،اے اہل علم ! تم نعمت و حشمت کے حصول کے لیے کوشاں رہ کر علم وغیرہ نعمتوں کے لئے مجھ سے ہی التجا کرو ۔ میری رفاقت سے کبھی رو گرداں نہ ہو* ۔ ( رگ وید ) رگ وید ہی میں یہ بھی لکھا کہ جس سے کس قدر بصیرت مندانہ توحید کی تعلیم واضح ہوتی ہے؟ *اے بنی نوع انسان! میری حقیقی حمد و ثنا، راست گوئ ہے ۔ ایسی حمد کرنے والے انسان کو میں ازلی علوم وغیرہ عطا کرتا ہوں* ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *اس لئے عالم میں جو اشیاء موجود ہیں ان کا خالق اور قیوم میں ہوں ۔ اس لئے تم مجھے چھوڑ کر کسی اور کی عبادت مت کرو ۔ اور نہ کسی کو میری جگہ معبود مانو اور جانو* ( اتھر وید) ایک اور جگہ اللہ کی صفات کو یوں بیان کیا گیا ہے : *جسے آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ آنکھ جس کی قدرت سے دیکھنے کے قابل ہوتی ہے ۔ اسے ہی تم خدا سمجھو، آنکھ سے دکھلائی جانے والی جن چیزوں کو لوگ عبادت کرتے ہیں وہ خدا نہیں ہیں* ۔ *نوٹ باقی کل کے پیغام میں ملاحظہ فرمائیں*
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔