حلال رزق

محمد قمر الزماں ندوی

حلال روزی حاصل کرنے کے لیے دیگر ذرائع کی طرح اسلام میں تجارت اور کاشت کاری کو بڑی اہمیت گئی ہے ، اور اس کے فضائل بھی بیان کئے گئے ہیں، کاشت سے صرف انسان ہی فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ حیوانات اور چرند و پرند بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور یہ فائدہ اٹھانا کاشت کار کے لیے صدقہ بن جاتا ہے۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زراعت کرنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرمائی اور اس میدان میں ان کو مکمل چھوٹ دیا، البتہ حلال و حرام اور مکروہات کی قبیل کی چیزوں کو بتا دیا کہ زراعت اور بٹائی کی کون کون صورت درست نہیں ہے؟ انصار مدینہ زیادہ تر کاشت کرتے تھے، کجھور کے درختوں میں وہ لوگ تابیر یعنی ایک خاص ٹیکنک اختیار کرتے تھے جس کی وجہ سے کجھور کا حجم اور وزن بڑھ جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے تابیر کرنے سے منع فرما دیا، اس سال کجھور کا حجم اور وزن ہلکا ہوگیا، انصار صحابہ نے آکر آپ کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "انتم اعلم بامور دنیاکم" تم لوگ دنیاوی امور کھیتی باڑی کے سلسلہ میں مجھ سے زیادہ جانتے ہو۔۔ اور یہ فرمایا کہ یہ چیز منصب نبوت کا حصہ نہیں ہے۔۔۔
ایک انصاری صحابی کے ہاتھ میں کھیت سینچتے سینچتے گٹے پڑ گئے تھے ایک موقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصافحہ کیا تو آپ نے پوچھا کہ تمہارے ہاتھ میں یہ کھردرے نشانات کیوں ہیں کیا تم کتابت کرتے ہو کیا❓اس انصاری صحابی نے کہا نہیں, رسی اور ڈول کھینچتے کھینچتے یہ حالت ہوگئی ہے، آپ نے ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا اور مبارک باد دی کہ تم نے حلال روزی کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے۔۔۔ اور جنت کی بشارت دی۔۔۔
اسلام میں زراعت اور کاشت کی کیا اہمیت ہے اور اسلام کسانوں اور زراعت پیشہ لوگوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے؟ اس کا اندازہ ذیل کے اس اقتباس سے لگا سکتے ہیں۔۔۔
*"کاشت کاروں کی اہمیت کے پس منظر میں اسلام نے اس شعبہ کو بڑی اہمیت دی ہے، اللہ تعالیٰ نے کاشت کاری کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے: أنتم تزرعونہ أم نحن الزارعون (واقعہ: ۶۴) اور کہا ہے کہ '' اللہ تعالیٰ ہی نے زمین کو کاشت کے لئے موزوں بنایا ہے'' (ملک: ۱۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے، اس میں سے پرندہ، انسان یا جانور جو کچھ کھاتا ہے، یہ اس کے لئے صدقہ ہوتا ہے، (بخاری عن انس بن مالک، حدیث نمبر: ۲۳۲۰) بعض روایتوں میں درندوں کا بھی ذکر ہے کہ اگر درندے کھاتے ہیں تو اس میں بھی صدقہ کا ثواب ہے، (مسلم عن جابر بن عبداللہ، حدیث نمبر: ۱۵۵۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو صدقۂ جاریہ قرار دیا ہے، ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چیزوں کو صدقۂ جاریہ قرار دیا ہے، ان میں ایک کھجور کا درخت لگانا بھی ہے، (البحرالذخار، حدیث نمبر: ۷۲۷۹) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی بلیغ تاکید کے ساتھ شجر کاری کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: اگر قیامت قائم ہو جائے اور تمہارے ہاتھ میں کوئی پودا ہو اور یہ ممکن ہو کہ قیامت آنے سے پہلے تم اس پودے کو لگا سکو تو اسے لگا دینا چاہئے، (الادب المفرد عن انس بن مالک، حدیث نمبر: ۴۷۹). زمینوں کو افتادہ چھوڑے رکھنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس زمین ہو، اس کو چاہئے کہ اسے کاشت کرے، اور اگر کاشت نہیں کر سکتا تو اپنے مسلمان بھائی کو زمین دے دے، اس کو کرایہ پر نہ لگائے، (مسلم عن جابر، حدیث نمبر: ۱۵۳۶) مقصد یہ ہے کہ زمین کو یوں ہی خالی نہ چھوڑ دے، یہ اللہ کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری اور انسانیت کو اس کے نفع سے محروم رکھنا ہے؛ اس لئے اگر کسی کے پاس قابلِ کاشت زمین ہو تو اس کو ضرور کاشت کرنا چاہئے، یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ سماج میں کچھ لوگ اتنی زیادہ زمینوں پر قابض ہو جائیں کہ وہ ان کو کاشت نہ کر سکیں؛ اس لئے ایسے شخص کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ زائد زمین ان بھائیوں کو دیدیں، جو کاشت کرنے کے موقف میں ہوں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ضائع نہ ہو جائے اور انسانیت اس کے نفع سے محروم نہ رہ جائے، سیدنا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں ایک صاحب آئے، انھوں نے عرض کیا کہ ایک ایسی زمین جو ویران ہو گئی تھی اور زمین کے مالکان خود اس کو آباد کرنے کے موقف میں نہیں تھے، میں نے اس کے لئے نہر کھودی اور اس میں کھیتی کی ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: خوش ہو کر کھاؤ، تم نے اصلاح کی ہے، فساد پیدا نہیں کیا ہے، آباد کیا ہے، ویران نہیں کیا ہے، (کتاب الخراج یحییٰ ابن آدم؍۷۵۹) بظاہر یہ ویران زمین سرکاری زمین رہی ہوگی، جو کسی شخص کو دی گئی ہوگی؛ تاکہ وہ اسے آباد کرے اور جب وہ آباد نہیں کر پایا تو دوسرے شخص نے آباد کیا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو اس زمین پر برقرار رکھا، بہر حال اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خلافتِ راشدہ میں اس بات کی کوشش کی جاتی تھی کہ افتادہ زمینیں آباد کی جائیں اور وہ کسانوں کو دے دی جائیں۔"*(شمع فروزاں- ٨/١/٢٠٢١)
اوپر جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں, یہ صرف مذھبی رو سے ہی نہیں ہے, بلکہ دنیاوی اعتبار سے بھی اس کی اتنی ہی اہمیت ہے, دنیا کا کوئی فرد بشر اس سے مستغنی نہیں ہے، زراعت اور زراعت پیشہ لوگ سے اپنے کو کوئی الگ نہیں کرسکتا چاہے وہ جتنا بڑا فنے خان ہو۔۔۔۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کہ اکثر ملکوں میں یہ طبقہ مظلومیت کی زندگی گزار رہا ہے، ان کی کوششوں کو کماحقہ سراہا نہیں جاتا اور نہ کاشت کی کی مناسب قیمت ہی لگائی جاتی ہے۔۔۔ آلو کے بنے ہوئے چیپس اور لیس کی قیمت دیکھئے اور کسانوں کے اگائے ہوئے آلو کی قیمت دیکھئے۔۔۔ گیہوں اور چاول اور مکا کی قیمت پر نظر رکھئے اور ان اجناس سے بنی اشیاء کی قیمتوں پر غور کیجئے۔۔۔۔۔ سب کچھ سمجھ میں آجائے گا۔۔۔
ان دنوں ہندوستان میں جو زرعی قانون بنا ہے، اس کے منفی اور خطرناک پہلو کی وجہ سے ہزاروں، لاکھوں کسان اس سخت اور شیت لہر میں مہینوں سے احتجاج میں بیٹھے ہیں، لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی ہے،کوئی رحم اور ترس نہیں آرہا ہے، بلکہ دن بدن ان پر سختیاں برتی جارہی ہیں اور سنگھی لوگوں کو اس کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پورا ملک اس کے خلاف ایک آواز ہوجاتا اور کسانوں کے حق میں سارے لوگ متحد ہوجاتے، لیکن حقیقت یہ کہ ہم صرف ٹی وی پر نظارہ دیکھ رہے ہیں اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔۔ ہم مسلمانوں کے سامنے حلف الفضول کی پوری حقیقت سامنے ہے، پیارے آقاﷺ کا اس میں کردار ہمارے سامنے ہے۔۔۔ لیکن ہم حلف الفضول کے واقعہ کو تقریر و تحریر میں پیش کرتے ہیں عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔۔ بس تقریر اور مضمون کی حد تک حلف الفضول کی باتیں کرتے ہیں۔۔۔
اس وقت بہت سے نوجوان سوال کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کا رول اس وقت کیا ہونا چاہیے، ہمارے قائدین کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے جواب دیا کہ پنجاب ہریانہ اور مغربی یوپی کے مسلمان انسانیت کی بنیاد پر اس تحریک اور احتجاج کا دامے درمے قدمےاور سخنے ساتھ دے رہے ہیں اور صاحب دانش طبقہ بھی لکھ اور بول رہے ہیں۔ لیکن عمومی طور پر مسلمانوں کو جس طرح آواز اٹھانی چاہیے، نہیں اٹھا رہے ہیں، اس میں بہت سی مجبوریاں بھی ہیں، موجودہ حکومت اور منافق میڈیا اس قدر خطرناک ہے کہ اگر مسلمان اس میں پیش پیش رہتے تو آج اس مسئلہ کو کچھ سے کچھ بنا دیا جاتا اور فوراً پاکستان کے ایشو سے اس کو جوڑ دیا جاتا بلکہ بار بار جوڑا بھی گیا۔۔۔۔

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

لیکن ان تمام کے بعد بھی میرا موقف ہے کہ بحیثیت بھارتی شہری اور مسلمان ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم مصلحت اور مذھبی اختلافات سے بالا تر ہو کر کسان آندولن کا ساتھ دیں، حق کو حق بولیں، مظلوم کا ساتھ دیں، پیارے آقا کی سنت حلف الفضول کی تاریخ دہرائیں امید کہ اعلی قیادت ہم سب کی رہنمائی کریں گے اور اس موقع پر امت کی صحیح قیادت کریں گے اور ناامیدی کے ماحول سے ہم سب کو نکالیں گے،۔۔۔
مظفر نگر میں کیا ہوا اور ٹکیت کو موجودہ حکومت نے کس طرح گمراہ کیا❓ اس موضوع کو چھیڑنے کی ابھی ضرورت نہیں ہے، ابھی موجودہ حالات میں ہمیں کیا کرنا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، وقت بدلتا رہتا ہے، ہمشیہ یکساں نہیں رہتا، اس لیے جو لوگ اس وقت منفی تحریریں لکھ رہے ہیں اور ماضی کا حوالہ دے کر مزے لے رہے ہیں وہ اچھا نہیں کر رہے ہیں۔۔۔۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔