محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپگڑھ
کل ایک ندوی فاضل نے جو ہم سے تین چار سال سنئیر ہیں ،علمی دینی، سیاسی اور ملی کاموں میں بھی اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں، بہت سے امور میں، خود میں ان سے مشورہ بھی لیتا ہوں،ایک آل انڈیا سطح کی کونسل (تنظیم) کے صوبائی صدر بھی ہیں۔۔ کل ان کا بہار چناوُ کے بارے میں ایک عجیب و غریب تبصرہ اور تجزیہ پڑھنے کو ملا، ان کی سادگی اور بھولے پن والے بیان اور تجزیہ پر ہنسی بھی آئی اور افسوس بھی ہوا۔ انہوں پورے یقین کے ساتھ اہل بہار کو اور خاص طور پر اہل سیمانچل کو مشورہ دیا کہ آپ تمام اہل بہار پورے بہار میں مہا گٹبندھن کو ووٹ کریں اور سیمانچل کی تمام سیٹوں میں ایم آی ایم یعنی مجلس کو متحد ہوکر ووٹ کریں۔ اور ترک یہ دیا کہ بہار میں سیمانچل کو چھوڑ کر مہا گٹبندھن ایک سو پچاس کے قریب سیٹیں حاصل کر رہی ہیں، اس لیے سیمانچل میں مجلس کو متحد ہو کر ووٹ دیجئے تاکہ ان تمام پندرہ سیٹوں میں مجلس جیت جائے اور مسلم قیادت مضبوط ہو جائے، انہوں نے بڑے وثوق کے ساتھ یہ بات کہی۔۔ میں نے اس کے جواب میں پوسٹ لکھا کہ۔۔۔۔۔۔۔
سیمانچل میں بھی تمام اہل سیمانچل مہا گٹبندھن کو ہی ووٹ کریں۔ سوائے ایک دو سیٹوں کے جہاں مجلس کی جیت یقینی ہے، جیسا کہ بعض سیٹوں کے بارے میں لوگوں کو یقین ہے، اور جہاں امیدوار بھی ہر طرح سے مضبوط اور لائق و فائق ہو۔
کشتی جب بھنور میں ہو تو نئے ملاح کی تلاش نہیں ہوتی، بلکہ اسی ملاح کو مضبوط کیا جاتا ہے اور اس پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔۔۔
آئندہ مجلس نیچے کی سطح سے محنت کرے اور زمین بنائے اور پردھانی، سرپنچی، سمیتی، چئیرمینی، اور ضلع پریشد کے الیکشن سے اپنی کوشش اور مشن کا باقاعدہ آغاز کرے۔۔
اس وقت نئی قیادت اور نئی پارٹی کا تجربہ کسی طرح بہتر نہیں ہوگا۔
جو لوگ اس طرح کی رائے اور مشورہ دے رہے ہیں وہ پنہ بیچار کریں اور اپنی رائے اور سوچ کو بدلیں۔۔۔۔
ورنہ یاد رکھیں کہ آپ کے اس عمل سے کیا نتیجہ سامنے آئے گا۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
مجھے حیرت ہے کہ مجلس کے لوگ اور ورکرز اتنے جذباتی کیوں ہو رہے ہیں، حالات اور وقت کی نزاکت کو کیوں نہیں سمجھ رہے ہیں؟۔ ہماری تھوڑی سی اور معمولی غلطی سے بڑا نقصان سامنے آئے گا ، اس پر ان کی نظر کیوں نہیں ہے؟ میں پچھلے سال جھارکھنڈ کے پورے الیکشن میں یہاں موجود رہا ، اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے ذہن سازی کی، علماء اور اہل علم کو اس اہم مسئلہ کی طرف متوجہ کیا کہ لوگوں کو سمجائیں اور جذباتیت سے بچائیں، الحمد للہ بہت سے علماء کرام اور اہل دانش نے اپنے پیسے خرچ کرکے دورے کئے اس کا اچھا نتیجہ سامنے آیا۔۔۔ اہل بہار کو بھی میں جھارکھنڈ رول ماڈل اختیار کرنے کا مشورہ اور صلاح دیتا ہوں۔۔
مجلس کے لوگ مجھے برا بھلا کہہ رہے ہیں، کانگریسی کہہ رہے ہیں، اور نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں،؟ لیکن ملت کے اجتماعی مفاد میرے سامنے ہے، اس لیے ان ساری چیزوں کو برداشت کر رہا ہوں، ان شاء اللہ سیمانچل کے لوگ میری اس اپیل اور درخواست پر غور کریں گے۔
ایک بات اور میں یہاں ظاہر کر دوں کہ جتنے بھی لوگ مجلس کی تائید کر رہے ہیں، ان میں سے نوے فیصد لوگ صرف کانگریس کے خلاف زہر اگل رہے ہیں، ستر سال ستر سال کی رٹ لگا رہے ہیں، کانگریس کے زمانے میں جو فسادات ہوئے اس کی کلپ اور تصویریں پرانے اخبارات سے لے کر پوسٹ کر رہے ہیں، پندرہ بیس سال کی عمر کے نوجوان لکھ رہے ہیں کہ ہمارے اکابر میں عقل و شعور کی کمی تھی، انہوں صحیح فیصلے نہیں لئے۔اس کے لیے اپنی کوئی طاقت اور قیادت نہیں کھڑی کی اور چند حقیر مفاد کے لیے کانگریس کی جھولی ڈوتے رہے، امت کو قعر مذلت میں ڈال گئے۔۔۔۔ اپنی زندگی کی اڑتالیسویں بہار احقر دیکھ رہا ہے ہمیشہ بڑوں کے بارے میں متوازن رائے قائم کی اور ان کے فیصلے کا احترام کیا ، لیکن اس وقت چند جذباتی نوجوان ہیں،جن کی عمر ابھی بیس کی دھائی پار نہیں کر سکی ہے، وہ جو چاہ رہے ہیں لکھ رہے۔۔۔۔
اب آپ سب کو فیصلہ کرنا ہے اور سمجھنا ہے کہ یہ دو دن کے چھوکرے کو عقل و شعور ذہانت و فراست زیادہ ہے، یا ہمارے اکابرین ان سے زیادہ سمجھدار تھے؟
ابھی تک کسی مجلسی ورکر نے میرے پاس یہ تفصیلات نہیں بھیجی کہ دس پندرہ سالوں میں بی جی پی نے ہندوستان کی کیا درگت کردی اور ہمارا جینا کس طرح حرام کر دیا ہے۔
میں بتا دوں کہ میں کانگریس کو بھاجپا کے مقابلے میں چھوٹا دشمن سمجھتا ہوں اور بڑے دشمن کے مقابلے میں چھوٹے دشمن سے قریب ہونا مجبوری میں زیادہ بہتر اور عقل و فراست کی بات ہے۔۔۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔