حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ

یوں تو اس چمن کا ہر پھول نرالا ہے لیکن حضرت حکیم الامتؒ کی بات ہی کچھ اور ہے، زمانہ طالب علمی سے ہی کچھ کر گزرنے کا شوق تھا چنانچہ ١٢ سال کی عمر میں ہی تہجد مع وظائف شروع کر دیئے تھے، ١٩ یا ٢٠ سال کی عمر میں بفضلہ تعالیٰ فارغ ہوگئے، حضرت تھانوی ؒ کی عاجزی و انکساری کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب فراغت کے سال دیوبند میں دستاربندی ہونے والی تھی، تو حضرت تھانویؒ اپنے استاذ محترم حضرت مولانا محمد یعقوبؒ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت ہم اس قابل نہیں ہے کہ ہمیں مدرسہ کی جانب سے سند فراغت سے نوازا جائے، اگر آپ ایسا کریں گے تو مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی، حضرت استاذ محترم جواب میں گویا ہوے کہ ابھی آپ اپنی شخصیت سے واقف نہیں ہے، اور زمانہ طالب علمی کی یہی شان بھی ہے لیکن جب آپ مدرسہ سے باہر قدم رکھیں گے تب آپ کو اپنی ہستی کا اندازہ ہوگا، چنانچہ استاذوں کے سمجھانے کے بعد آپ دستاربندی کے لئے راضی ہو گئے، حضرت گنگوہیؒ کے مقدس ہاتھوں سے دستاربندی بندی ہوی ۔۔!!

(#ایک_نظر_علمی_خدمات_پر)

1857 کی جنگ آزادی جس جنگ کو انگریزوں نے غدر کے نام سے موسوم کیا، اس جنگ میں ناکامی کے بعد جب انگریز فوجوں نے انتقام لیا، اور لوگوں کا گاجر مولی کی طرح قتل عام کیا، مسلمانوں کے سینکڑوں افراد کو پھانسی پر چڑھایا، اس وقت مسلمان جب سب کچھ کھو کر ایک نئے سرے سے زندگی کا آغاز کر رہے تھے، تو مسلم معاشرے کی چاروں بنیادی چیزیں یعنی قرآن کریم، حدیث و سنت، فقہ حنفی، اور سلوک و احسان یہ سب بھی خطرات سے دوچار ہوئے ، چنانچہ قرآن کریم کی وہ تعبیر و تشریح جو صحابہ کرامؓ کے دور سے اجتماعی تعامل و توارث کی صورت میں اب تک چلی آ رہی تھی، اسے ماضی کا حصہ قرار دے کر نئی تعبیر و تشریح کا نعرہ لگا دیا گیا، کہ اب اس کی تفسیر وغیرہ عقل اور جدید سائنس کے مطابق کی جائے، اور ادھر سنت و حدیث اور فقہ وغیرہ کی ضرورت سے ہی انکار کر دیا، ایسے حالات میں ضرورت تھی کہ کوئی ایسا رہبر رونما ہو جو انکی صحیح رہنمائی کر سکے، کوئی ایسا محدث ہو جو حدیث کی ضرورت کو دلائل کی روشنی میں واضح کر سکے ۔۔!!

چنانچہ ایسے ماحول میں ایک ستارہ رونما ہوا جن کا نام حضرت حافظ غلام مرتضٰی پانی پتیؒ نے اشرف علی رکھا اور آج دنیا انہیں حکیم الامتؒ کے لقب سے پکارتی ہے، حضرت نے وہ ساری خدمات انجام دیئے جو وقت کا تقاضہ تھا، چنانچہ علمی خدمات انجام دیتے ہوئے ٨٠٠ سے زائد کتابیں تصنیف فرمادیں، حضرت نے جو تعلیم و تربیت، سلوک و معرفت، اور تلقین و ارشاد کے ذریعے اس صدی میں خدمات انجام دی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ۔۔!!

حضرت کی مثالی زندگی کے بارے میں کیا کہا جائے، وہ تو سورج کی طرح تھے، جس کا کام ہی ہوتا ہے، اندھیروں کو بھگانا اور اجالے کا لانا، یہ حضرت تھانوی کی ہی برکت ہے کہ ہمارے پاس اتنا علمی ذخیرہ موجود ہے ورنہ تو اس جنگ کے بعد یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اب ہمارے ہاتھوں سے سارا علمی ذخیرہ چلا ہی جائے گا چنانچہ ان کے انہیں خدمات کو دیکھ کر ان کو "مجدد الملت" کہا گیا۔۔!!

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اپنی زندگی میں وہ خدمات انجام دیں، جس کو تاریخ کبھی بھلا نہیں سکتی، جب تک آپ اس دنیا میں زندہ رہے اپنے قول و فعل سے ہزاروں کی زندگیوں کو سنوارا، اور اس دارفانی سے رخصت فرمانے کے بعد بھی آپ کے علمی خدمات سے ہزاروں لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں، اور بڑے بڑے علماء آپ کے خوشہ چیں ہیں وہ آپ کی تصنیف کردہ کتاب سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ شرف قبولیت عطا فرمایا کہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی آپ لوگوں کی دلوں میں زندہ ہیں ۔۔۔!!

اللہ تعالیٰ حضرت کو جنت میں بہترین مقام عطا فرمائے، آمین ثم آمین یارب العالمین ????

⁦✒️⁩ ؂ شمس الدین سراجی

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔