حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
*من صمت نجا* احمد/ترمذی
یعنی جس نے خاموشی اختیار کی، نجات پائ ۔
ایک دوسرے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *من کان یومن باللہ فلیقل خیرا او لیصمت* ۔ بخاری /مسلم
جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا پھر خاموش رہے ۔
بلا ضرورت اور بے مقصد گفتگو کرنا اور ہر وقت بولتے ہی رہنا یہ شریعت میں پسندیدہ اور محبوب عمل نہیں ہے ۔ انسان بات اسی وقت کرے جب ضروری ہو اور اس سے دین و دنیا کا فائدہ ہو، بے مقصد اور بلا ضرورت بات کرنے کے نقصانات اور آفات بہت زیادہ ہیں اور آدمی کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا ۔ ایسی باتیں جو بے مقصد فضول اور لایعنی ہوں جن میں نہ ثواب ہو اور نہ عذاب ،ان کے مقابلہ میں خاموشی اور چھپ رہنے کو ترجیح اور فوقیت حاصل ہے ۔ گفتگو میں معلوم نہیں کب آدمی حد سے تجاوز کر جائے ۔ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔ مشہور بزرگ اور عالم فضیل بن عیاض رح نے فرمایا ہے کہ جو شخص بات اور گفتگو کو بھی عمل سمجھے گا وہ بے فائدہ بات کم کرے گا ۔ *ما یلفظ من قول الا لدیہ رقیب عتید* (سورہ ق ۱۸ ) ۰۰کوئ بات اس نے کہی نہیں کہ اس کے پاس ایک نگراں رہتا ہے ۰۰
خاموشی سے کتنی ہی بھلائیاں وابستہ ہیں اور اس کے زریعہ سے آدمی دنیا و آخرت کی کتنی ہی آفتوں پریشانیوں اور برائیوں سے مامون و محفوظ رہتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آدمی دوزخ میں زیادہ تر زبان ہی کی بے باکیوں کی وجہ سے اوندھے منہ گرائے جاتے ہیں ۔ *من صمت نجا* اس حدیث میں ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ اس میں سکوت کے بجائے صمت کا لفظ آیا ہے جو نہایت بلیغ ہے صمت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی بولنے پر قادر ہے لیکن وہ قصدا خاموشی اختیار کرتا ہے ۔
علماء کرام اور اہل علم نے خاموشی اور سکوت کے بارے میں لکھا ہے کہ : خاموش رہنا ایک بہترین اور نفع بخش عادت ہے، خاموشی سناٹا نہیں بلکہ ایک سرگوشی ہے ،اپنے باطن میں جھانکنے کا،اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا، خود کی آگاہی اور بیداری کا ۔ خاموشی خود پر قابو پانے کا ایک بہترین متبادل ہے اور یہ غور و فکر کا ایک ذریعہ ہے جس سے مسائل کے حل کو راہ ملتی ہے ۔
یہ سورج کی گردش، یہ دن رات کا روزانہ وجود میں آنا، یہ موسموں کا بدلنا یعنی کے قدرت کا نظام بھی خاموشی سے اپنی کارکردگی انجام دیتے ہوئے یہ پیغام دیتا ہے کہ اللہ تعالی کی اور کائنات کی زبان خاموشی ہے ۔خاموش رہنا ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے ۔ یہ ایک بیش بہا اور قیمتی نعمت ہے ۔ یہ وہ خدائ عطیہ اور انعام ہے جو ہمیں بیکار باتوں سے ،نزاع اور تفرقہ سے تنازعات اور فسادات سے روکتی ہے ۔ یہ خاموشی ہماری سلامتی کی ضامن ہے ۔
سائنسی اعتبار سے بھی خاموش رہنا اپنے آپ میں ایک علاج ہے ۔ طبی اعتبار سے دن بھر میں دو گھنٹوں کا خاموش رہنا دماغ میں نئے خلیات بننے میں معاون ثابت ہوتا ہے جس سے دماغ کی کارکردگی میں بہتری اور اضافہ ہوتا ہے، دماغ کو تقویت ملتی ہے جس سے دیکھنے کی صلاحیت اور یاد داشت کو فروغ ملتا ہے ۔
امریکن انسٹی ٹیوٹ آف سائنٹفک ریسرچ میں دوگروپ تشکیل دئے گئے ۔ ایک گروپ کو زیادہ سے زیادہ بولنے کا کام دیا گیا ۔ اور دوسرے گروپ کو بہت ہی کم بولنے یا خاموش رہنے کا کام دیا گیا ۔ ایک ہفتے کے بعد جب دونوں گروپ کے افراد کا طبی معائنہ کیا گیا تو یہ بات ثابت ہوئ کہ جس گروپ کو زیادہ بولنے کا کام دیا گیا تھا ان میں ذہنی تناو پایا گیا اور ان کا بلیڈ پریشر زیادہ تھا ۔ جس گروپ کو کم بولنا یا خاموش رہنا تھا ان میں تناو نہیں تھا اور ان کا بلیڈ پریشر نارمل تھا اس سے یہ بات واضح ہوگئ کہ خاموش رہنا اپنے آپ میں ایک علاج ہے ۔ (روز نامہ انقلاب ۱۹ مارچ /۱۸ء کالم اوڑھنی)
قربان جائیے آقا مدنی محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کہ آپ نے تقریبا ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی فرما دیا تھا کہ جو چپ رہا وہ نجات پا گیا۔ گویا آپ نے طب اور سائنس کی باتوں سے اور خاموشی کی افادیت سے پہلے ہی بنی نوع انسانی کو واقف کرا دیا تھا ۔
آج سائنس بھی اس کی افادیت اور عظمت کو ماننے اور تسلیم کرنے کے لئے تیار ہے ۔
مذہبی اور سائنسی اعتبار سے خاموشی کی بڑی افادیت ہے جیسا کہ اوپر اس کی تفصیلات میں یہ چیزیں بتاتئ گئیں ۔
لیکن افسوس کہ آج جب ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک کو بولنے کا جنون ہے ،ضرورت ہو یا نہ ہو بولنا لوگوں نے اپنے لئے ضروری سمجھ لیا ہے ۔ آج سکوت تدبر غور و فکر اور خاموشی ایک قصئہ پارینہ بنتی جارہی ہے ۔
لیکن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جہاں دین کی دعوت اشاعت تبلیغ اور احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے بولنا ضروری ہو اور اظہار حق کے لئے بولنا ہی وقت کا تقاضا ہو تو وہاں پوری جرآت و بہادری اور ہمت و حوصلہ کے ساتھ اپنی گفتگو رکھنا عبادت ہی نہیں عین عبادت ہے، وہاں خاموشی جرم اور گناہ ہے ۔ لیکن معاشرہ اور سوسائٹی کا ایک بڑا المیہ اور ٹریجڈی یہ ہے کہ جہاں حق پرستی کے لئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں لوگ خاموش ہو جاتے ہیں جب کہ اس موقع پر خاموشی زہر بن جاتی ہے ۔
اللہ تعالٰی ان حقائق کو سمجھنے کی ہم سب کو توفیق مرحمت فرمائے آمین