???? *صدائے دل ندائے وقت*????(993)
*خدا تعالیٰ کی ایک دھمکی __!!*
*اللہ تعالیٰ نے مال ہر کسی کو نہیں دیا، پھر بھی ضرورت ہر کسی کی پوری ہوتی ہے، زندگی سبھی جیتے ہیں؛ لیکن کوئی دولت سے آزمایا جاتا ہے تو کوئی فقر سے. غربت بھی ایسی چیز ہے کہ انسان کو کفر تک پہونچا دے، پیٹ کی بھوک اور شدت پیاس انسان کو کسی بھی در پر لے جا سکتی ہے، مگر اس کیفیت میں عمومی انسان کو اپنی آزمائش کا اندازہ رہتا ہے، دنیا جانتی ہے کہ اگر کسی بیماری کی تشخیص ہوجائے تو اس کا علاج آسان؛ بلکہ آسان تر ہوجاتا ہے، خود مریض بھی احتیاط برتتا ہے اور اپنے آپ کو شفائے کاملہ کی طرف دھکیلتا ہے، چنانچہ ظاہری امور کا بھی یہی حال ہے کہ اگر معمولی دینی حس ہو تب بھی دل میں جگے ایمانی جوت سے تمام دریاؤں کو عبور کر جاتا ہے، صبر و استقامت اور نرم دل کے ساتھ اس کھائی کو پاٹ کر رہتا ہے، جو اس کیلئے آڑ ہو، اس کے بالمقابل مال (اگرچہ ظاہر و مادی شئی ہے) کی کثرت انسان کو اندھا، نابینا بنادیتی ہے، اسے خوشی و غمی کے فرق کا پتہ نہیں چلتا، مصائب کو مستی اور خوشی کو اپنی مہارت سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسوں کیلئے سخت ترین عذاب ہے، قیامت کے دن بھی ان کا حساب کتاب ہونا مشکل ہوگا، اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت قابل غور ہے، قرآن مجید ایک معجزہ ہے، انسان کی زندگی کا آئینہ ہے، اس آئینہ میں دولت کے ساتھ ناان??افی کرنے والے اور بخل و کنجوسی کرنے والوں کا انجام مذکور ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:ہٰۤاَنْتُمْ ہٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۚ فَمِنْکُمْ مَّنْ یَّبْخَلُ ۚ وَ مَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ ۚ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوْنُوْۤا اَمْثَالَکُمْ__ (محمد:٧٣) "ہاں، تم ایسے لوگ ہو کہ تمہیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی دعوت دی جاتی ہے؛ تو تم میں سے بعض بخل کرنے لگتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے، وہ اپنے آپ ہی سے بخل کرتا ہے، (یعنی اسی پر بخل کرنے کا وبال ہوگا) اور اللہ تو کسی کے محتاج نہیں ہیں، تم محتاج ہو، اگر تم سرکشی کروگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو پیدا کردیں گے، پھر وہ تمہاری طرح نہیں ہوگی."__*
*اللہ تعالیٰ نے مال کے ساتھ بخل کرنے والوں کو طعنہ دیا ہے، انہیں سخت سرزنش کی ہے، اور اسی کو اس قدر سنگین بتایا ہے؛ کہ یہ دین سے انحراف کے مانند ہے، اور اگر ایسا ہے تو اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایسی قوم کو لا کھڑا کرے جو ان بخیلوں جیسی نہ ہوگی، ان کے بھاگے مجرموں کی طرح نہ ہوگی، رب کے قوانین سے بغاوت کرنے والی اور اس کی تقسیم کے ساتھ ناجائز رویہ کرنے والی نہ ہوگی، حسب ذیل آیت سے مذکورہ سے آیت بھی سمجھنے میں معاون ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اِنْ یَّسْئَلْکُمُوْہَا فَیُحْفِکُمْ تَبْخَلُوْا وَ یُخْرِجْ اَضْغَانَکُمْ __ (محمد:٣٦) "اگر اللہ تم لوگوں سے مال طلب کریں پھر تم سے زیادہ سے زیادہ کا مطالبہ فرمائیں، تو تم بخل کرنے لگوگے اوریہ بخل تمہاری اندرونی ناگواری کو ظاہر کردے گا." اس کا مطلب یہ ہے کہ دولت کے ان حریصوں کو جب اسے خرچ کرنے کیلئے کہا جائے گا، تو ان کے دل کی بیماری ظاہر ہوجائے گی، یہ پتہ چل جائے گا کہ ان کے اندر کتنی ایمانداری، دیانتداری، اللہ سے تعلق، اس کا خوف اور اس کی اطاعت بجالانے کا جذبہ پایا جاتا ہے، حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے کا ماننا ہے کہ"یخرج" (ظاہر کردے گا ) کا فاعل اللہ تعالیٰ کو قرار دیا، یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری ناگواری کو ظاہر کردے گا" (آسان تفسیر قرآن مجید_) ایسے میں اصحاب ثروت سمجھ لیں کہ دولت صرف عیش پرستی کیلئے نہیں، محض اپنی ضرورت پوری کرنے کیلئے نہیں؛ بلکہ قوموں کی فلاح کیلئے ہے، سخاوت، جود، دریادلی انسان کا امتیاز ہے، بالخصوص اس امت کا طرہ شان ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا ہے اور کنجوسی کو لازم پکڑا جاتا ہے، حتی کہ مامورات میں بھی قیل و قال کیا جانے لگے، تو سمجھ لیں کہ اس کا عمومی عذاب قوموں پر بھی آسکتا ہے؛ کیونکہ فلاح اجتماعی ہے تو عذاب بھی اجتماعی ہوسکتا ہے، سو ہوشیار ہوجائیں اور اپنی دولت کا صحیح مصرف تلاش کریں.*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
02/08/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔