خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نئی ہدایات کے حصول کا دعوی

خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نئی ہدایات کے حصول کا دعوی ؟

✍: شکیل منصور القاسمی

کِسی بھی اُمتی کا اپنے رسول کریم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے خواب میں دیکھنا عین ممکن ہے اور یہ بڑی سعادت کی بات ہوتی ہے ۔ حضرت ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا "جِس نے مجھے ( خواب میں ) دیکھا تو اُس نے حق دیکھا کیونکہ شیطان میرے جیسا نہیں بن سکتا" (صحیح بخاری /حدیث /6997کتاب التعبیر /باب10) حضرت أنس رضی اللہ عنہ ُ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا "جِس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اُس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صُورت(اختیار کر کے اُس ) کا شبہ نہیں ڈال سکتا، اور اِیمان والے کا خواب نبوت کے چھیالیس (46) درجات میں سے ایک درجہ ہے " (صحیح بخاری /حدیث /6994کتاب التعبیر /باب10)

لیکن حضور کو خواب میں دیکھنا کسی کے لیے دلیل ولایت نہیں ہے حضور کو خواب میں دیکھنے اور نئی ہدایات وارشادات کے حصول کا اگر کوئی دعوی کرتا ہے تو اس کے دعوی کی تصدیق کی کوئی بھی صورت ممکن ہی نہیں ہے

اگر اس طرح کے خوابوں کا دعویدار مسلمان ہو ، متقی ، صحیح الحواس و متبع سنت ہو تو اس کے خواب کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ صرف حسن ظن ہی رکھا جاسکتا ہے یقین بالکل نہیں کیا جاسکتا !

خواب میں حضور کی جانب سے مبینہ ہدایات وارشادات موجب یقین و قطعیت ہر گز نہیں ہوسکتے

مصادر شریعت کتاب وسنت اور ان پہ متفرع اجماع وقیاس ہیں ، امتی کے کشف و کرامات یا الہام وخواب احکام و ہدایات کے مصادر نہیں بن سکتے آج کے دور میں کسی بڑے سے بڑا شخص کا دعوائے خواب اور وہاں سے مخصوص ہدایات و بشارات نہ خود اس شخص پر حجت ہے نہ کسی اور پر ۔

قرآن وحدیث کی ہدایات وارشادات ہی تاقیامت رہنما اصول ہیں ، دین مکمل ہوچکا ہے ، ہر زمانے میں امت کی کامیابی کے جامع گُر احادیث وآثار میں بتا دیئے گئے ہیں ، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ذریعۂ خواب کسی کو اپنا “مبلّغ خاص “ بنانے کی ضرورت ہے نہ ہمیں اب کسی نئے اصول کو خواب ومنام کے ذریعہ کشید کرنے کی ضرورت ہے ۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبینہ کسی نئی ہدایت کو حکمِ رسول سمجھنا اور اسے اس حیثیت سے دوسروں تک پہونچانا غیر شرعی عمل ہے ، اس سے معاشرے میں لامتناہی بے چینی پیدا ہوتی ہے ۔ اگر کسی بندۂ صالح نے حقیقت میں ایسا کچھ دیکھا بھی ہو تو اسے مخفی رکھنا چاہیے ۔ بے سند باتوں پہ کان دھرنے اور اسے پہیلانے سے لوگ خواہ مخواہ الجھنوں کے شکار ہونگے اور ان کی قوت فکر وعمل متاثر ہوگی ۔ *شکیل منصور القاسمی* ١١جنوری ۲۰۲۰

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔