خود اعتمادی کامیابی کا پہلا زینہ

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*دنیا* میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ مستقبل میں ایک کامیاب انسان بن جائے ۔ کامیابی و کامرانی اور سرفرازی وسر بلندی اس کا مقدر اور نصیبہ بن جائے ۔ عظمت و بلندی اور راحت و سکون اسے میسر ہوجائے وہ سماج اور معاشرہ میں باعزت شہری رہے ،عہدہ و منصب بھی اسے حاصل ہو اور علم و فضل اور فراست و ذہانت اور فہم و ادراک میں بھی لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھیں ۔ ان چیزوں کی تمنا اور خواہش تو سبھی کرتے ہیں لیکن یہ مقام و رتبہ اور عزت و وقار انہیں کو ملتا ہے جو تقدیر پر ایمان رکھ کر اس کے لئے تدبیر اور جہد و مشقت کرتا ہے اپنے اندر ہمت عزم اور خود اعتمادی پیدا کرتا ہے ۔ خود اعتمادی کامیابی کی علامت اور فلاح و کامرانی کا زینہ ہے اپنے اندر بغیر خود اعتمادی پیدا کئے منزل کا خواب دیکھنا اور ہدف کو حاصل کرنے کی امید رکھنا یہ دیوانے کا خواب ہی سمجھا جائے گا ۔ ہر انسان کے اندر اللہ تعالی نے خوبیاں اور صلاحیتیں رکھی ہیں ۔ ہر ایک کے اندر کوئی نہ کوئی کمال اور خوبی ضرور پنہاں ہوتی ہے اب یہ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو تلاش کرے اس کے لئے جدوجہد کرے اور خود پر اعتماد کرے ۔ منزل اور ہدف کو پانے کے لئے سب بنیادی چیز یہ ہے کہ پہلے خود پر اعتماد کرنا شروع کردے ۔ خود اعتمادی پیدا کرنے کے لئے پہلا اصول یہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں پر بھر پور اعتماد اور بھروسہ کرے کیونکہ جب یہ چیز پیدا ہوجائے گی تو انسان کو اپنے کو نکھارنے میں وقت نہیں لگے گا اور وہ منزل ضرور پالے گا ۔اس لئے انسان کو چاہئے کسی بھی کام کو کرنے یا کسی منزل تک پہنچنے سے پہلے اس کی راہ میں حائل مشکلات سے گھبرانے اور پیچھے ہٹنے کی بجائے خود پر اعتماد و بھروسہ کرکے کام کا آغاز کردے ۔ یہاں ہمیں بچپن میں پڑھی ہوئی ایک کہانی یاد آرہی ہے کہ ایک قافلہ اپنی منزل پر جاتا ہوا راستہ بھول گیا اور کئی کئ دن تک سفر کرتا رہا ۔ وہ قافلہ امید چھوڑ چکا تھا کہ اب وہ دوبارہ اپنی منزل پر یا اس راستے سے کسی دوسری جگہ نہیں پہنچ سکیں گے ۔ چلتے چلتے انہیں ایک راستہ نظر آیا ۔ جس کی منزل ایک شہر کی جانب جاتی تھی ۔ وہ اس سمت روانہ ہوگئے ۔ لیکن وہاں پہنچنے پر انہیں پتہ چلا کہ ایک اونچی دیوار کے باعث وہ راستہ بند ہے ۔ کچھ لوگ جب اس دیوار کو پار کرنے کی کوشش کرتے تو باقی لوگ پیچھے سے آوازیں لگانا شروع کر دیتے کہ گر جاو گے تو جان سے جاو گے اور تمہاری زندگی ختم ہوجائے گی ۔ لیکن کچھ نوجوانوں نے دیوار پر چڑھنا جاری رکھا ۔ جیسے جیسے وہ دیوار پر چڑھتے لوگوں کو شور و ہنگامہ بڑھتا جاتا کہ تم یہ نہیں کرسکتے واپس آجاو ۔ لیکن ان میں سے ایک شخص ایسا موجود تھا جو ان آوازوں کو ان سنا کرکے چڑھنے میں کامیاب ہو گیا اور اوپر پہنچ گیا ۔ اس شخص نے اوپر پہنچ کر رسی پھینکی تاکہ لوگ اوپر چڑھ سکیں ۔ لوگوں نے دوسری پار پہنچ کر اس کا شکریہ ادا کیا ۔ تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کا مسیحا قوت سماعت یعنی سننے کی صلاحیت سے محروم تھا ۔ اس لئے چڑھنے میں کامیاب ہوگیا ۔کیوں کہ اس نے اپنے پیچھے آنے والی تمام آوازوں کو سنا ہی نہیں تھا ۔ آج ہماری سب سے بڑی کمی اور مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتے، اس کا ادراک نہیں کرتے ہم لوگوں کی آوازوں اور باتوں پر کان دھرتے ہیں ۔ کہ آپ یہ کام نہیں کرسکتے ۔ یہ آپ کے بس کا نہیں ہے ۔ یہ بہت مشکل اور دشوار ہے ۔ وہاں تک تمہاری رسائی نہیں ہوپائے گی ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ اس لئے اگر ہم کامیابی چاہتے ہیں اپنی منزل پانا چاہتے ہیں اپنے ہدف کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمت استقلال ثابت قدمی اور خود اعتمادی کو اپنے اندر پیدا کرنا ہوگا ۔ اور لوگوں کی ہمت شکن باتوں سے ان سنی کرنی ہوگی تبھی ہم اپنی منزل اور ہدف کو پانے میں کامیاب ہوں گے ۔ *خود اعتمادی* یہ لفظ اور اصطلاح قرآن و حدیث میں کہیں استعمال نہیں ہوا ہے۔ بلکہ اس کے بدلہ *توکل علی اللہ* کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ یہ بالکل درست ہے کہ قرآن کریم میں خود اعتمادی یا الثقتہ بالنفس کا لفظ استعمال نہیں ہوا ہے ۔ خود اعتمادی تو اصلا ہمت اور عزم کا پہلا قدم ہے اس کے بعد سارا کام قوانین فطرت کے مطابق ہی انجام پاتا ہے جو خالق کائنات نے اس دنیا میں قائم کیا ہے ۔ لیکن خود اعتمادی کی اہمیت اس سے ختم نہیں ہوجاتی ۔ بلکہ یہ بنیادی محور ہے ،جب تک انسان عزم و ہمت نہ کرے اور اپنے اوپر بھر پور اعتماد نہ کرے وہ کسی مقصد اور عمل میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ شریعت نے ہمیں تقدیر پر ایمان لانے کے ساتھ تدبیر اختیار کرنے اور پھر توکل علی اللہ کا حکم دیا ہے ۔ *فاذا عزمت فتوکل علی اللہ* اس سے کسی کو انکار نہیں کہ دنیا میں جتنے عظیم انسان بنے اور جنہوں نے دین و دنیا کے اعتبار سے عظمت و بلندی حاصل کی،انسانیت کے لئے نافع بنے وہ خود اعتمادی کے جوہر سے پر تھے ۔ اور اسی خود اعتمادی اور توکل علی اللہ کے ذریعہ وہ بلندی کے اس مقام پر پہنچے ۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ خود اعتمادی اجتماعی زندگی کے لئے ایک پروبلم ہے اس سے اکثر مسائل پیدا ہوتے ہیں، مجھے اس سے مکمل اتفاق نہیں ہے ممکن ہے کبھی اور کہیں ایسا ہوجاتا ہو ۔ لیکن اس کو کلی کا درجہ دینا یہ صحیح نہیں ہے ۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے ایک جگہ خود اعتمادی کو زندگی کا پروبلم بتایا ہے ۔ جب کے اکثر صاحب علم کو ان کے اس موقف سے اتفاق نہ ہو ۔ *مولانا صاحب لکھتے ہیں* : *خود اعتمادی یا الثقتہ بالنفس( self confidence ) کی اصطلاح قرآن یا حدیث میں استعمال نہیں ہوئی ہے- اس کے بجائے قرآن و حدیث میں جو لفظ استعمال ہوا ہے، وہ توکل علی اللہ کا لفظ ہے- یہ فرق کوئی سادہ بات نہیں- یہ ایک بےحد اہم فرق ہے- خود اعتمادی کا لفظ ایک* *ڈسپٹو( deceptive ) لفظ ہے- اس سے سارا فوکس اپنی ذات پر چلا جاتا ہے، جس کا نتیجہ فخر ( pride ) ہوتا ہے- اس کے برعکس، اگر آپ توکل علی اللہ کا لفظ بولیں تو آپ کا سارا فوکس اللہ پر قائم رہے گا، اور اس کے نتیجے میں آپ کے اندر تواضع ( modesty ) پیدا ہو گی*- *غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ خود اعتمادی کا کام اصلا صرف ایک ہے- اور وہ یہ کہ خوداعتمادی آپ کو پہلے قدم ( first step ) کی ہمت دیتا ہے- اس کے بعد سارا کام قوانین فطرت کے تحت انجام پاتا ہے، جو کہ خالق نے دنیا میں قائم کیا ہے- یہ کہنا صحیح ہو گا کہ کسی معاملے میں خوداعتمادی کا حصہ ایک فیصد ہے، اور قوانین فطرت کا حصہ ننانوے فیصد*- *خوداعتمادی بظاہر ایک اچھی صفت ہے، لیکن اجتماعی زندگی میں وہ اکثر مسئلہ پیدا کرنے کا سبب بن جاتی ہے- جس آدمی کے اندر خوداعتمادی ہو، وہ اکثر شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ کام جو ہوا ہے، وہ صرف اس کی وجہ سے ہوا ہے- اس بنا پر وہ چاہنے لگتا ہے کہ کام کا سارا کریڈٹ صرف اس کو ملے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعیت کا ایک پرابلم ممبر بن جاتا ہے- وہ جب دیکھتا ہے کہ اس کو سارا کریڈٹ نہیں مل رہا ہے تو وہ منفی سوچ میں مبتلا ہو جاتا ہے- وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اجتماعی زندگی میں جو رول اس کو ادا کرنا تھا، اس رول کو وہ بخوبی طور پر ادا کر سکے- اس کے برعکس، توکل علی اللہ یا اعتماد علی اللہ کی نفسیات سے انسان کے اندر ہر قسم کے مثبت اوصاف* *( positive qualities ) پیدا ہوتی ہیں- وہ اجتماعی زندگی کا ایک صحت مند ممبر بن جاتا ہے- وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں اپنے مطلوب رول کو بخوبی طور پر ادا کر سکے*- الرسالہ، مارچ 2017

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔