محمد قمر الزماں ندوی
ایک کامیاب داعی اور مبلغ کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعوت کی راہ میں آنی والی دقتوں، تکلیفوں، پریشانیوں اور زحمتوں پر صبر و ہمت سے کام لے، مدعو کی طرف سے جو تکلیف دہ اور پریشان کن معاملہ آئے اس کو برداشت کرے، کیونکہ دعوت کا مشن بغیر صبر کے کامیاب نہیں ہوسکتا، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کامیاب داعی اور مبلغ وہی ہے جو کار دعوت میں آنے والے حالات کو خندہ پیشانی سے قبول کرلے اور اس پر مضطرب اور پریشان نہ ہو اور نہ ہی منفی رد عمل کا اظہار کرے، قرآن مجید میں سورہ عصر میں وتواصوا بالحق کے ساتھ ساتھ وتواصوا بالصبر کی خاص تلقین کی گئی ہے اور اس کو کامیابی کی شاہ کلید بتایا گیا ہے۔۔
اس سلسلہ میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ تمثیلی حدیث سے بھرپور رہنمائی ملتی ہے۔ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ قیس کی طرف دینی احکام کی تعلیم و تبلیغ کے لیے بھیجا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا گویا کہ اہل قبیلہ بدکے ہوئے اونٹ???? کی طرح ہیں، دنیا کے حریص اور لالچی، ان کو اپنی ???? بکریوں اور اونٹ???? کے سوا کسی چیز سے کوئی مطلب اور دلچسپی نہیں ہے، جب میں وہاں سے لوٹ کر نبی کریم ﷺ کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اے عمار! اپنے کام کی رپورٹ دو اور اپنی کارکردگی سناو؟
میں نے عرض کیا : یہ لوگ دین سے دور اور بالکل غافل ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان سے زیادہ تعجب خیز حال تو ان لوگوں کا ہے جنہوں نے جاننے کو سب کچھ جانا، لیکن ان ہی کی طرح دین سے غافل اور بے پرواہ ہوگئے۔۔۔۔( مسند بزار حدیث نمبر ۱۴۳۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ صبر اور ہمت سے کام لے کر دینی دعوت میں نہیں لگے اور ناامید ہو کر اور محاذ چھوڑ کر فورا اپنے مقام پر واپس آگئے۔۔ جب کہ ان کو وہیں رہ کر محنت کرنی چاہیے اور لوگوں کے مزاج کو بدلنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔)
یہ حدیث یقیناً دعوت دین اور تبلیغ اسلام کے کام میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے مشعل راہ اور خضر راہ ہے۔ دعوت کے کام کے لیے سب سے زیادہ تحمل، صبر اور برداشت و شگفتہ مزاجی کی ضرورت پڑتی ہے۔۔ جب تک داعی اور مبلغ میں صابرانہ مزاج نہ گا، تحمل اور برداشت کی صلاحیت نہیں ہوگی، اس کی دعوتی سرگرمیاں کامیاب نہیں ہوسکتی ہیں۔۔ صبر ایک ڈھال ہے، جس کے ذریعہ داعی اور مبلغ مشکلات اور حالات کا مقابلہ کرتا ہے۔۔ چنانچہ انبیاء کرام علیھم السلام کی زندگیوں میں صبر، تحمل اور برداشت کی اعلی مثالیں ملتی ہیں، دعوت کا مشن صبر، تحمل اور برداشت کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعوت کا کام شروع کرنے سے پہلے داعی کو ایسی تربیت حاصل کرنی چاہیے کہ دعوت کے میدان میں مشکلات کو برداشت کرنے کی صلاحیت اور ہمت پیدا ہو جائے۔۔۔ عام طور پر مشاہدہ یہی ہے کہ لوگ اسلام کا پیغام اور دین کی دعوت اللہ کے بندوں تک پہنچانے کا جذبہ تو ضرور رکھتے ہیں مگر دعوت دین کے انبیائی اصول و ضوابط اور تقاضوں سے عہدہ برآ نہیں ہوپاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان میں برداشت، صبر اور تحمل کا مزاج نہیں ہوتا ہے، اس لیے داعی کو دین کے راستے میں صبر کی مشق کرنی چاہیے تاکہ عصر حاضر میں اسلامی دعوت کے وسیع امکانات سے ہم اور آپ سب بھر پور فائدہ اٹھا سکیں۔۔
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔