دنگے کیوں بھڑکتے ہیں

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1014)
*دنگے کیوں بھڑکتے ہیں؟*

*دنگے، فساد، بدامنی اور تشدد یکبارگی میں نہیں پھوٹتے، علاقہ کا علاقہ یونہی نہیں جلنے لگتا، انسانیت شرمسار ہوتی ہے اور انسان انسان کو کاٹتا ہے وہ سب فی الفور نہیں ہوجاتا؛ بلکہ ان سب کا ذمہ دار وہ غیر تحفظ، غیر یقینی اور غیر اعتمادی صورتحال ہے جس کو خود ملک کے اعلی حکام اور بڑی اکثریت نے ایک دوسری اکثریت کے دل میں اتار دیا ہے، ان سے نظام، قانون اور عدالت کا بھروسہ چھین لیا ہے، انہیں یہ بتایا ہے کہ ان کے ساتھ کچھ بھی ہوتا رہے سسٹم خراٹے کی نیند سوئے گا، بستیاں جل کر خاک ہوجائیں گی؛ لیکن بجھانے والے، آگ ٹھنڈی کرنے والے نرم گدوں پر پڑے ہوں گے، ایکشن کے نام پر کوئی رییکشن نہ ہوگا؛ بلکہ جب بھی کارروائی ہوگی تو ان بے قصوروں کو ہی زنجیروں اور بیڑیوں میں ججڑا جائے گا، آپ بنگلور فساد پر ہی غور کیجئے! ایک شخص نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی، اس نے نہ صرف ملک بھر کے مسلمان؛ بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف پہونچائی، ان کے عقیدے و محبت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلواڑ کیا، فیس بک پر یہ پوسٹ پڑی رہی، پھر ڈلیٹ بھی کردی گئی، متحرک و فعال لوگوں نے منظم طور پر پولس اہلکار کو خبر، ان سے فوری حرکت کا مطالبہ کیا؛ لیکن سسٹم نے آنکھیں بند کرلیں، کان میں روئی ٹھونس لی، اور بغلیں بجانے لگے، ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ ہمیشہ ٹرولس کرنے والوں کے ساتھ کرتی ہے، ملک میں ہر روز لڑکیوں، امانت دار صحافیوں یا کہئے کہ ہر وہ شخص جو حکومت سے الگ نطریہ رکھتا ہے اسے ٹرول کیا جاتا ہے، سوشل پلیٹ فارم پر موجود حکومتی غنڈے گھیر لیتے ہیں اور عزت و ناموس کی بخیہ ادھیڑنے لگتے ہیں، لڑکی کو بلاتکار، اس کے گھر کو پریشان کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں؛ مگر کوئی کاروائی نہیں ہوتی ہے، یہی چیز ایک طبقہ کو حکومت پر اعتماد کرنے سے روک دیتی ہے، انہیں لگنے لگتا ہے کہ اب ان کے پاس کچھ نہیں ہے، وہ نظام سے ابر چکے ہیں، چنانچہ اب وہ قانون ہاتھ میں لینے اور اپنی جان لگادینے میں ہی بقا سمجھتے ہیں، یہ صرف بنگلور کی ہی کہانی نہیں ہے؛ بلکہ دہلی فساد اور گجرات و غیرہ تمام فسادات میں یہ عنصر بڑی مضبوطی کے ساتھ پایا جاتا ہے، رپورٹس بتاتی ہیں کہ اگر حکومت چاہتی تو ان دنگوں کو روک سکتی تھی، معاشرے میں شعلہ بھڑکنے سے پہلے اسے دبا سکتی تھی، مگر ہر دفعہ یہی دیکھا گیا کہ اسے بجھانے کے بجائے اس میں گھی ڈال کر مزید شعلہ زن بنایا گیا اور پوری کمیونٹی کو اس کا ایندھن بنا کر رکھ دیا.*
*آخر سوچئے__! کہ کیوں یہ احساس پیدا نہ ہوگا؟ جب ایک طبقہ دیکھ رہا ہے؛ کہ لنچنگ کی ابتدا کرنے والا اور اخلاق کو موت کے گھاٹ اتار دینے والا جب مر جاتا ہے، تو اسے ترنگے میں لپیٹ کر عزت دی جاتی ہے، جب سالوں سے چلی آرہی ایک متنازع معاملہ میں فیصلہ آتا ہے تو مسجد کی جگہ مندر بنانے کی بات طے ہوجاتی ہے، جبکہ خود عدالت یہ قبول کرتی ہے کہ دلائل ناقص ہیں، اور مسلم گروہ زیادہ مضبوط ہے، اس کے باوجود خود اس ملک کے مکھیا مندر کی بنیاد رکھنے جاتے ہیں، جب ہوگی آدتیہ ناتھ جو اترہردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں ان سے پوچھا جاتا ہے؛ کہ کیا آپ مسجد کا افتتاح کرنے جائیں گے تو وہ صاف منع کردیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ مندر کی افتتاحی تقریب میں جائیں گے؛ لیکن مسجد کی نہیں، جب لاک ڈاؤن لگتا ہے تو مساجد میں دس دس لوگوں کے جمع ہونے پر بھی پولس ڈنڈے مارتی ہے، مگر ہزاروں کی بھیڑ مندر میں جمع ہوتی ہے تو کچھ نہیں ہوتا، جب کوئی مسلم نام کا بھی شخص اظہار رائے کا حق استعمال کر لیتا ہے اور خدا نہ خواستہ متنازع بیان دے جاتا ہے، تو ملک کا نظام ہلچل میں آجاتا ہے؛ مگر کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر کھلے عام مسلمانوں کو ٹارگٹ بناتے ہیں اور وہ بھی پولس کے اعلی کمان کے سامنے زہر اگلتے ہیں، تب بھی کچھ نہی ہوتا وغیرہ ____ یہ ایک پوری داستان ہے، ناانصافیوں کا دفتر ہے، کہاں تک سنیں گے اور کہاں تک سنائیں گے، یہی وہ اصل جڑ ہے جو ا??ک طبقہ کو مجبور کرتی ہے؛ کہ انہیں مشتعل کردے، وہ مہذب دنیا سے نکل کر قبائلی نظام کی طرف لوٹ جائیں، اور خود انصاف کا علم بلند کرنے لگیں، ہمیں اسے قبول کرنے میں کوئی باک نہیں کہ یہ طبقہ ضرورت سے زیادہ مشتعل، جذباتی اور پلان و منصوبے سے عاری ہے؛ لیکن اسے ہر ایک کو قبول کرنا چاہئے کہ انہیں اس دلدل میں پھنسانے والی خود حکومت ہے، اگرچہ اس میں اپنوں کی کرم فرمائی بھی کم نہیں؛ تاہم ایک نظام نے انہیں مجبور کردیا ہے کہ اپنا دفاع خود کریں، اگر کچھ نہ ہوسکے تو اپنی جان ہی دیدیں، چنانچہ اگر اس لچر نظام کو درست نہ کیا گیا، لوگوں کی سوچ نہ بدلی گئی، انہیں یہ یقین نہ دلایا گیا کہ ملک میں وہ برابری کا حصہ رکھتے ہیں اور قوانین ان کی پاسداری کیلئے فعال ہے تب تک یہی صورت حال بنی رہے گی.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
23/08/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔