دنیا و آخرت کے درمیان ایک خاص فرق

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1166)
*دنیا و آخرت کے درمیان ایک خاص فرق -*

*دنیا اور آخرت کے درمیان بہت فرق ہے، بلکہ کہنا یہ چاہئے کہ ان دونوں کے مابین تقابل ہی غلط بات ہے، دنیا مصائب و آلام اور غمی و خوشی کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے؛ جبکہ آخرت محض راحت و آرام سے تعبیر ہے، جنت کے متعلق یہ کہنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک ایسی بستی ہے جس کے بارے میں نہ کانوں نے سنا ہے اور نہ آنکھوں نے کبھی دیکھا ہے؛ اور ناہی کسی خیال سے اس گزر ممکن ہے، تاہم ایک خاص فرق کی طرف توجہ دینا بہت اہم ہے، بلاشبہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، ہر انسان اللہ تعالی کی جانب سے دئے گئے پرچے پر اپنا عمل لکھ رہا ہے؛ بلکہ اپنا انجام لکھ رہا ہے، کسی پل اسے سکون نہیں، جس طرح امتحان ہال میں ہر وقت نگاہ قلم، کاپی اور علمی فکر و انہماکی میں گزارنا ضروری ہوتا ہے؛ ویسے ہی دنیا میں ہمہ وقت انسان کو ایک ایسی متناہی آزمائش سے گزرنا رہتا ہے جس کا اختتام صرف اور صرف موت ہے، اب جو شخص اپنا رقعہ بہتر اعمال سے بھرلے اس کیلئے کامیابی ہے، دنیا میں جو اللہ تعالی کے احکام کی پیروی کرلے، اپنی رضا اس کے مطابق کر لے، اور زندگی کو اسی کی منشاء کے اعتبار سے ڈھال لے وہ فلاح پا لیتا ہے، ??ب انسان امتحان دیتا ہو، آزمائش میں ہو تو کوئی نہ ہوگا جو آرام و راحت اور من مرضی کو لازم سمجھتا ہو! ہر ایک جانتا ہے کہ ایسے لمحہ میں صرف اور صرف اپنے کام پر توجہ دینی ہے، اگر نگاہ سے چوک ہوئی تو لمحے کی خطا سب کچھ تباہ کر سکتی ہے، ظاہری دنیا بھی اسی آماجگاہ کی نشانی ہے، یہاں سکون و راحت تلاش کرنا اور اپنے انجام سے مطمئن ہو کر بیٹھ جانا، اپنی ہر خواہش کی تکمیل کو ضروری سمجھ لینا نادانی ہے، غالب نے اپنی شوریدہ طبیعت کی عکاسی دنیا کی حقیقت کے پیرائے میں بہت خوب کیا تھا کہ:*
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم. نکلے
*یہ دنیا کانٹے دار تاج پہنچاتی ہے، خاردار عزت دیتی ہے، پتھروں کی تپش پر بلندی دیتی ہے، خواہشات اور نفس کو مارنے اپنی دلی تمناؤں کا خون کردینے پر انعام دیتی ہے، سسکیوں اور آنسوؤں، چیخ و پکار پر خلعت محبت دیتی ہے، ہر چیز کا ایک معاوضہ ہے، ان میں سبھی کچھ مشقت سے منسلک ہے؛ لیکن اس کے بالمقابل جنت ایسی نہ ہوگی، وہاں اگر داخلہ مل جائے تو پھر سب کچھ وہی ہوگا جو آپ چاہیں گے، آپ کے پلک جھپکتے ہی خواہشیں پوری کردی جائیں گی، جائز و ناجائز کی تمیز اٹھادی جائے گی، دل میں کوئی کدورت اور میل نہ ہوگا، آپ کو گھٹ گھٹ کر جینا نہ ہوگا، رہ رہ کر رونا نہ ہوگا، اپنے پرائے کا غم نہ کھانا ہوگا، جو آپ سوچیں وہ حاضر، جو آپ کہیں وہ موجود.!!!*
*قرآن مجید نے بڑی خوبی سے تعبیر کیا ہے، ذرا پڑھتے جائیے: نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَۃِ ۚ وَ لَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْۤ اَنْفُسُکُمْ وَ لَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ - (حم سجدہ:٣١) "ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے، تمہارے لئے وہاں وہ سب کچھ ہے، جس چیز کو تمہارا جی چاہے، نیز تمہارے لئے اس میں وہ تمام چیزیں حاضر ہوں گی، جو تم طلب کروگے" سوچئے اللہ تعالی کی توجہ و عنایت کیا کم تھی کہ (تشتھی) کا بھی انعام جوڑ دیا گیا، ایک اور مقام پر ہے- یُطَافُ عَلَیْہِمْ بِصِحَافٍ مِّنْ ذَہَبٍ وَّ اَکْوَابٍ ۚ وَ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْاَعْیُنُ ۚ وَ اَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ - (زخرف:٧١)" ان پر سونے کی پلیٹوں اور پیالوں کا دور چلے گا اور جنت میں وہ سب چیزیں ہوگی، جن کی لوگ خواہش کریں گے اور جو آنکھوں کو بھائیں گی اور تم ہمیشہ یہیں رہوگے" اس آیت سے تو یہاں تک ثابت ہوتا ہے کہ دنیا میں حلال و حرام کے جو قوانین ہیں، جس سے انسان دنیاوی زندگی میں لطف اندوز نہیں ہوسکتا، وہ سب اہل جنت کو حاصل ہوں گی، ساری پابندیاں اُٹھا دی جائیں گی؛ چنانچہ دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال جائز نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا، (بخاری ، کتاب الاشربۃ ، باب الشرب فی اٰنیۃ الذھب ، حدیث نمبر : ۵۳۰۹) لیکن آخرت کا معاملہ اس سے مختلف ہوگا ، وہاں اہل جنت کا ایسے برتنوں سے اعزاز کیا جائے گا۔ آہ یہ اعزاز بھی کیا خوب ہوگا!! چنانچہ جب یہی انسان کی اصل مننزل ہے تو بھلا فکر کی کیا بات ہے، اپنے آپ کو دنیا بندشوں سے تنگ کرنے اور ناامیدی کیا جگہ ہے، کیوں آزمائش پر سینہ تنگ ہو، دل. مچلے اور خواہشات کی شکستگی پر آنسو جاری ہوں، اب دنیا کی آزمائشوں میں خود کو گھلاتے رہئے، جو بَن سکے وہ کرتے رہئیے، پھر یہی امید رکھئے! کہ انشاء اللہ یہ سب کچھ زائل ہوگا، ہر درد کا درماں ہوگا، ہر تکلیف کا مداوا ہوگا، اور پھر ایک خاص عمر کاٹنے کے بعد وہ مل جائے گا جس میں صرف اور صرف آپ کی ہی خواہشیں، مرضیات اور خوشیاں ہوں گی.*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
22/01/2021

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔