دینداری کا خود ساختہ ہیولا

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1110)
*دینداری کا خود ساختہ ہیولا -*

*اسلام کی آفاقیت، ابدیت اور جامعیت کے باوجود اس کے ماننے والوں نے اسے علاقائی دین بنانے کی پوری کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ مشرق و مغرب کا فرق کبھی کبھی اتنا زیادہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی اصل تصویر دھندلی ہونے لگتی ہے، یہ مانا کہ عرف اور زمان و مکان کی رعایت رکھی گئی ہے؛ لیکن ان کا تعلق جزوی مسائل سے ہے اصل دین سے نہیں، اسے دوسری تعبیر میں قطعی و غیر قطعی بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی کسی آبادی کیلئے قطعیات ایمان میں کوئی گنجائش نہیں ہے؛ مگر غیر قطعی امور میں تمام اختلافات کے ساتھ آپسی رواداری، عزت و احترام، غلو پر مبنی فتاوی اور تشدد سے پرہیز اشد ضروری ہے، پھر بھی عصر حاضر میں ملکی رسم و رواج، مسلکی و اجتہادی اختلافات کو عین دین کا حصہ بلکہ جزولاینفک بنا کر شخصیات، مسالک یا کہنا چاہئے کہ دین کی توہین کی جارہی ہے، چنانچہ آج دین اور دینداری کا حیران کن ہیولا بنا ہوا ہے، ہر ایک نے اپنی آنکھوں پر خاص فکر کا چشمہ لگا لیا ہے، اگر انہیں اپنی سوچ سے الگ کچھ نظر آتا ہے تو اسے غیر اسلامی قرار دے دیتے ہیں، اور اسلام پر آبائی جائیداد کے مثل حق جان کر اسے نکال باہر کرتے ہیں، یہ در اصل نظام فطرت سے بغاوت ہے، حق سے دوری اور لاعلمی کا نتیجہ ہے، مقاصد شریعہ کو نہ سمجھنے اور محض اپنی سمجھ کو سب کچھ سمجھ لینے کی بھول ہے، اس پس منظر میں مولانا وحیدالدین خاں صاحب کی ایک وقیع تحریر کا مطالعہ بے حد مفید ہے، آپ "فطرت کا نظام" کے عنوان پر رقمطراز ہیں: "حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنّ اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، با ب إن اللہ یؤیّد الدین) یعنی اللہ بے شک اِس دین کی تائید فاجر شخص کے ذریعے بھی کرے گا۔ اِس حدیث کا تعلق سادہ طورپر صرف دینِ اسلام سے نہیںہے۔ اِس حدیث میں در اصل فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ یہ قانون ابدی بھی ہے اور ہر ایک کے لیے عام بھی۔*
*اصل یہ ہے کہ خالق نے اِس دنیا کا نظام باہمی انحصار (interdependence) کے اصول پر قائم کیا ہے۔ اِس دنیا میں ہر انسان بالواسطہ یا براہِ راست طورپر دوسرے انسانوں سے جڑا ہوا ہے۔ جب بھی کوئی شخص ایک کام کرتا ہے تو اس میں یقینی طورپر دوسروں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ اِس دنیا میں ہر کامیابی کا تعلق مشترک عمل سے ہوتاہے، خواہ وہ دینی کامیابی ہو یا دنیوی کامیابی۔ فطرت کا یہ نظام اِس لئے ہے، تاکہ لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے اعتراف کا جذبہ پیدا ہو، تاکہ لوگ ایک دوسرے کو اپنا خیر خواہ سمجھیں، تاکہ پوری دنیا ایک بڑے خاندان کے مانند ہوجائے، تاکہ ہر ایک دوسرے کو اپنے بھائی اور بہن کے روپ میںدیکھنے لگے. باہمی تعاون کے اِس عالمی نظام کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کا اعتراف نہیں۔ اِس کا بنیادی سبب لوگوں کی فخر پسندی (pride) ہے۔ ہر عورت اور مرد کا یہ حال ہے کہ وہ فخر میں جی رہے ہیں۔ فخر کے جذبے کی تسکین صرف اُس وقت ہوتی ہے، جب کہ آدمی یہ سمجھے کہ جو کچھ اُس کو ملا ہے، وہ اس کی اپنی ذاتی صلاحیت کی بنیاد پر ملا ہے۔ فخر کا جذبہ اپنی تسکین کے لیے سارا کریڈٹ خود لینا چاہتا ہے۔ اِس بنا پر وہ دوسروں کا اعتراف نہیں کر پاتا۔ یہ رویہ سرتاسر فطرت کے خلاف ہے۔ اِس سے غیر حقیقت پسندانہ (unrealistic) مزاج پیدا ہوتا ہے، اور غیر حقیقت پسندانہ مزاج سے زیادہ تباہ کن کوئی اور چیز اِس دنیا میں نہیں۔"(الرسالہ نومبر:2009)*
*حقیقت یہ ہے کہ زمانے کے ریاکاروں نے دین کا خول اپنے منہ پر چڑھانے کیلئے ایسے حدود و قیود مقرر کردیئے ہیں جس سے وہ دوسروں کو دین سے کاٹ سکیں اور خود کی شخصیت کو مسلم ثابت کرتے ہوئے معاشرتی پیمانے پر پاپائیت کے دعویدار بن سکیں، اگر آپ اسلام کی آفاقیت پر غور کریں گے تو بلاشبہ ان خود ساختہ ضوابط کا استہزا کئے نہ رہ سکیں گے؛ بلکہ ان دماغوں پر بھی حیرانی ہوگی جنہوں نے پچھلی صدیوں میں انہیں ایجاد کیا اور یوں اس پر جم گئے کہ دین کی پرت کمزور ہوتی چلی گئی، معاشرہ رنگ و روغن کو ہی سب کچھ مانتی چلی گئی اور روح دین سے کہیں دور ہوگئی، ایسے میں علامہ شبلی کی یہ تحریر روحانیت کا ڈھنڈوارا پیٹ کر لوگوں کو صاحب علم و فن سے بدگمان کرنے والوں کے نام کافی و شافی ہے: "آج کل کے ریاکاروں نے دوسروں سے بدگمان کرنے کے لئے بہت سے الفاظ تراشے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فلاں شخص میں روحانیت نہیں، فلاں شخص عالم ہے لیکن دیندار نہیں. قرآن شریف پر نقطے حجاج بن یوسف نے لگائے، کسی نے یہ نہیں کہا کہ حجاج پر قوم کو بھروسہ نہیں(جبکہ اس نے صحابہ کو قتل کیا ہے)، بلکہ وہی منقط قرآن آج تمام دنیا میں پھیلا ہوا ہے. بلاغت کا پورا فن جس سے قرآن مجید میں ہرجگہ کام لیا جاتا ہے، حافظ، جاحظ، عبدالقاہر جرجانی، سکاکی کا بنا ہوا ہے، سب معتزلی تھے، کسی نے نہیں کہا کہ ان پر قوم کو اعتبار نہیں ہے، تفسیر کشاف تمام محدثین پڑھتے ہیں، حالاں کہ اس میں اعتزال بھرا ہوا ہے، قوم میں جب نیک و بد کی تمیز ہوتی ہے تو وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتی، اس کو خود پر بھروسہ ہوتا ہے، کہ وہ خذ ما صفا کرلے گی، لیکن جب علم نہیں رہتا اور حسد اور رشک کے سوا کوئی جوہر موجود نہیں ہوتا، تو لوگ اس قسم کی باتیں کہہ کر اپنا دل خوش کرتے ہیں اور لوگوں کو بدگمان کرتے ہیں."(حیات شبلی: 63)*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
27/11/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔