*کرونا وایرس* کی وجہ سے پوری دنیا بے چین و مضطرب،پریشان اور حواس باختہ ہے۔ ہندوستان ہی نہیں تقریباً پوری دنیا میں لاک ڈاؤن کی استتھی ہے، اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں محصور و مقید ہیں بلا شدید ضرورت اور مجبوری کے گھر سے باہر نہیں نکل رہے ہیں اور جو نکل رہے ہیں اور جو نوجوان خواہ مخواہ مٹر گشتی کرتے نظر آرہے ہیں پولیس والے ان کی لاٹھی ڈنڈوں سے خاطر تواضع کر رہے ہیں۔
اس وقت عقل و خرد اور دین و شریعت دونوں کی رہنمائی یہی ہے کہ جو جہاں ہے وہیں اپنے کو محفوظ رکھے ۔ ماہرین کے مطابق اس واءرس سے متاثر کی علامتیں جلد ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے اس سے محفوظ رہنے کی ایک اہم صورت لوگوں سے اختلاط کو ختم کرکے گوشہ نشینی اور تنہائی اختیار کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں حکومت وقت نے اپنے اپنے ملک کو لاک ڈاؤن کر رکھا ہے، تاکہ اس واءرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکے اور اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔ مشہور فلمی شاعر گلزار کی ایک بہت پرانی نظم ہے جس میں گھر سے نہ نکلنے کا انہوں نے مشورہ دیا تھا پتہ نہیں کس پس منظر میں انہوں نے یہ کہا تھا۔ لگتا ہے کہ قدرت نے پہلے ہی ان کی زبان سے یہ کہلوا دیا تھا۔
*بے وجہ گھر سے نکلنے کی ضرورت کیا ہے*
*موت سے آنکھ ملانے کی ضرورت کیا ہے*
*سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے*
*یونہی قاتل سے الجھنے کی ضرورت کیا ہے*
*ایک نعمت ہے زندگی اسے سنبھال کے رکھ*
*قبرستان کو سجانے کی ضرورت کیا ہے*
*دل کے بہلانے کو گھر ہی میں وجہ کافی ہے*
*یونہی گلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت کیا ہے*
*محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم* نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے اس سلسلہ میں امت کو آگاہ کر دیا تھا کہ اگر اس طرح کے حالات آجاءیں تو کیا کرنا چاہیے اور کس طرح عافیت تلاش کرنی چاہیے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب بہت سے فتنے ظاہر ہوں گے، ان فتنوں کے دور میں بیٹھنے والا کھڑا رہنے والے سے، کھڑا رہنے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔ جو ان فتنوں کو دیکھنا چاہے گا اسے وہ فتنے اپنے لپیٹ میں لے لیں گے، لہذا جس کو ان سے بچنے کی کوئی جگہ مل جائے وہ اس سے بچنے کی کوشش کرے۔
راقم نے بھی عافیت کی تلاش میں اور فتنہ سے حفاظت کے لیے بالکل اپنے کو لاک کرلیا ہے اور ان ایام میں سواءے دو تین دن کے آج تک مدرسہ کی باونڈری سے باہر قدم نہیں رکھا البتہ خدا کا بہت بڑا احسان ہے تمام نمازیں، (اور جمعہ بھی) باجماعت مسجد میں ادا کرنے کی توفیق مل رہی ہے،وجہ یہ بھی ہے کہ مدرسہ میں صرف چار ہی لوگ ہیں اور میرے دو تین چھوٹے بچے اور اہلیہ ہیں۔ اس پر اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں۔ تحدیث نعمت کے طور پر اس کا تذکرہ کردیا اس لیے دوستوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
فرصت کے ان دنوں میں ذکر و اوراد،نماز و دعا آرام و استراحت اور اکل و شرب کے بعد زیادہ تر وقت مطالعہ میں ہی گزرتا ہے اور اس میں بھی تنوع ہوتا ہے کسی ایک موضوع یا فن کا مطالعہ ????✏ نہیں ہوپاتا ہے۔ البتہ ان دنوں شخصیات اور سیرت و سوانح کا مطالعہ زیادہ ہوتا ہے جو میرا محبوب فن اور مشغلہ بھی ہے۔ آج ایک مشہور شاعر ساغر صدیقی کے بارے میں پڑھ رہا تھا جن کی زندگی کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاو میں عبرت و نصیحت کے بہت سے پہلو پنہاں ہیں، مناسب معلوم ہوا کہ آپ حضرات کی خدمت میں بھی اس مطالعہ کا حاصل، لب لباب اور خلاصہ پیش کر دوں تاکہ اس دنیا ???? کے بارے میں یہ نکتہ اور حقیقت خوب مستحضر ہو جائے کہ۔۔۔۔
*یہ عبرت کی جاہ ہے تماشہ نہیں ہے*
اور یہ استحضار بھی ہو جائے کہ کتنی عظیم اور عبقری صلاحیتوں کا انسان بھی اس دنیا ???? میں صحیح تربیت نہ ملنے کی وجہ سے اور بری صحبت اور خراب ماحول میں پڑ جانے کی وجہ سے دیدءہ عبرت نگاہ بن جاتا ہے اور لوگ کہنے لگتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔
*دیکھو انہیں جو دیدءہ عبرت نگاہ ہو*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*میری نگاہ شوق سے ہر گل ہوتا ہے دیوتا*
*میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجئے*
*مذکورہ* شعر ایک دل شکستہ شاعر *ساغر صدیقی* کا ہے جس کی زندگی کے نشیب و فراز پڑھ کر ترس اور رحم بھی آتا ہے ۔ دیدئہ عبرت نگاہ ہو تو بہت کچھ سمجھنے اور سبق لینے کا موقع ہاتھ آتا ہے اور یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ صحیح اتالیق اور نگراں و سرپرست نہ ملنے کی وجہ سے یا ان کے توجہ نہ دینے کی وجہ سے اور غلط دوستی ماحول اور یارانہ سے انسان کی زندگی کس قدر تباہ و برباد ہوجاتی ہے اور کیسی کیسی صلاحیت والے افراد بگاڑ و فساد کے قعر مذلت میں گر جاتے ہیں ۔ کہ پھر ان کے بارے میں کہنا پڑتا ہے کہ
*دیکھو انہیں جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو*
*ساغر* صدیقی نے خود ایک بار اپنے بارے میں کہا تھا ۰۰ میری ماں دلی کی تھی ،باپ پٹیالے کا، پیدا امرتسر میں ہوا زندگی لاہور میں گزاری ،میں بھی عجیب چوں چوں کا مربہ ہوں۰۰
*ساغر صدیقی* ۱۹۲۸ ء میں انبالہ مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے اصل نام محمد اختر شاہ تھا والد کا نام حبیب حسن خاں تھا ۔ کم عمری ہی میں شاعری شروع کر دی تھی ایک زمانے تک علوم شرقیہ کالج کے مشاعرہ میں ان کی شاعری کی دھوم رہی ۔ وہاں کا سالانہ مشاعرہ ان کے بغیر ادھورا رہتا ۔ ایک زمانہ میں ماہنامہ *تصویر* کے ایڈیٹر بھی رہیے۔ فلمی اخبار اور ماہنامہ بھی نکالا ۔ تقسیم ملک کے وقت جب کے ان کی عمر صرف ۱۹ سال کی تھی وہ پاکستان چلے گئے اور وہاں کے ادبی حلقہ سے جڑ گئے ۔ *بر صغیر* کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے ان کے دوستانہ تعلقات و مراسم تھے ۔ ۱۹۵۸ء میں ایک صحافی سے ان کی دوستی اور راہ و رسم ہوا اور جس کی غلط صحبت اور دوستی نے ساغر صدیقی کی زندگی برباد کر ڈالی اور وہ نشے اور افیم و مارفیا کا ایسا عادی ہوا کہ ان کی زندگی لوگوں کے لئے داستان عبرت بن گئ ۔ خاندان بکھر چکا تھا اس بکھراو کی وجہ سے خاندان کا کوئ ایسا مربی، سرپرست اور نگران نہیں ملا جو ان کو اس بیماری اور ام الخبائث سے (انہیں) روکتا اور ان کو برباد ہونے سے بچاتا ۔ دوستوں نے دغا کیا، تو حکومت نے بھی کبھی ان کی حالت زار پر ترس نہیں کھایا ۔ جنرل ایوب خاں کی شان اور اس کی حکومت کے بارے میں ایک بار انہوں نے کوئی قصیدہ لکھا اور جنرل صاحب کی خوب تعریف کی ان کی حکومت کو سراہا ،جنرل ایوب خاں نے خوش ہوکر ان کو ایک تقریب میں بلا کر انعام دینا چاہا اور ان کو دعوت دی، ساغر نے اس کو اپنے ۰۰انا ۰۰اور ۰۰خود داری۰۰ کے خلاف جانا اور انعام لینے سے انکار کر دیا اور ماچس کے ڈبے پر ایک شعر لکھ کر صدر صاحب کی خدمت میں بھیج دیا ۔
ساغر صدیقی خوبصورت نظمیں لکھتے تھے ،اور پھر انہیں بلند آواز میں خالی نگاہوں کے ساتھ پڑھتے ،پھر ان کاغذات کو پھاڑ دیتے جن پر وہ نظمیں لکھی ہوتیں، اس کے بعد کاغذ کے پرزوں کا ڈھیر بنا کر اسے آگ لگا دیتے ۔ ساغر صدیقی کے دوستوں نے اس کے ساتھ بے وفائی کی اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ان کے بیشتر دوستوں نے ان کے ساتھ ظلم کیا ۔یہ لوگ انہیں چرس کی پڑیا افیم اور مارفیا کے ٹیکے کی شیشیاں اور گولیاں دیتے اور ان سے غزلیں اور گیت لے جاتے ،اپنے نام سے پڑھتے اور شائع کراتے معاوضہ لیتے اور بحیثیت شاعر اور گیت کار اپنی شہرت میں اضافہ کرتے ۔ مہدی حسن خان سمیت کتنے ہی اپنے ضمیر کے مجرم ہیں ۔ جو ان کی غزلیں ،نظمیں گاتے رہے اور داد و تحسین لیتے اور سمیٹتے رہے اور شہرت کی بلندیوں کو چھو گئے لیکن اس درویش کی کوئ خبر نہ کی کہ وہ کس حال میں ہے ۔ کچھ نے تو ان کی کہی ہوئی غزلیں ادبی رسالوں کو مہنگے داموں میں بیچیں اور بعض تو اس حد تک چلے گئے کہ انہیں اپنے نام سے بھی چھپوا دیا ۔ جب دنیا اس باصلاحیت انسان کو بھول گئ، ساغر نے بھی دنیا کو تیاگ دیا ۔ سالوں وہ اسی طرح لاہور کی سڑکوں پر پھرتے رہے لوگ انہیں فقیر یا بھکاری سمجھ کر کھانے کو کچھ دے دیتے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس حال میں بھی وہ زبردست شاعری کرتے رہے حالانکہ لاغر پن اور شدید جسمانی کمزوری کی وجہ سے ان کے لئے خود اپنے منھ سے بولنا اور ایک باقاعدہ جملہ ادا کرنا ممکن نہ رہا ۔ کئی سال تک ایک آوارہ کتا ان کا ساتھی بنا رہا ،انہیں جو کچھ کھانے کو دکان داروں سے ملتا دونوں بانٹ کر کھاتے ۔ فٹ پاتھ پر ہمیشہ سوتے سخت سردی کے زمانے میں ہوٹل کے تندور پر ہوٹل بند ہوجانے کے بعد سوجاتے اور اسی طرح سردی کی رات گزار دیتے ۔ ایک بار کسی دوست نے شاید امین گیلانی نے ایک لحاف بنوا کر دیا لحاف لے کر جب وہ فٹ پاتھ کی طرف بڑھے تو دیکھا ایک فقیر ،بھکاری سردی سے کانپ رہا ہے فورا وہ لحاف اسی کو دے دیا ۔ اور خود ہمیشہ بغیر لحاف اور کمبل کے سردی کی رات گزار دی ۔ اس کتے کے ساتھ اس کی ایسی دوستی ہوگئی اور کتے کو ان کے ساتھ ایسی انسیت ہوگئ تھی کہ وہ کتا ان کے ساتھ ہی رہتا اور ان کے ساتھ ہی سوتا ۔ سڑک کے جس کونے پر ساغر اپنا بستر بناتے وہ بھی وہیں پڑ جاتا ۔ پندرہ سال تک مارفین اور چرس و افیم کے نشے ،ڈپریشن اور آوارگی کی زندگی نے آخر اپنا رنگ دکھایا چنانچہ ۱۹ جولائی انیس سو چوہتر صبح کے وقت ان کی لاش سڑک کے کنارے ملی اور دوستوں نے لے جاکر انہیں میانی صاحب کے قبرستان میں دفن کر دیا ۔ وہ ٹھنڈ لگنے سے نیند کے دوران ہی فوت ہوگئے ۔ ان کی عمر صرف چھیالیس برس تھی ۔ وہ کتا جو چھ سال تک ان کے ساتھ رہا اس جگہ سے نہ ہلا جہاں ساغر صدیقی فوت ہوئے ۔ بل کہ آخر ساغر کی موت کے ایک سال بعد وہ بھی مرگیا ،ٹھیک اسی جگہ جہاں ساغر نے اپنی جان دی تھی ۔
ساغر نے غزل ،نظم قطعہ رباعی ہر صنف سخن میں خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے ۔ وہ خود تو اسے کیا چھپواتے، ناشروں نے اپنے نفع کی خاطر اسے چھاپ لیا اور اسے معاوضے میں ایک حبہ اور پائی تک نہ دیا ۔ چھ شعری مجموعے اس کی زندگی میں لاہور سے چھپے ۔ غم بہار۔ زہر آرزو۔ لوح جنوں۔ سبز گنبد اور شب آگئی ساغر کا کلام ادبی اعتبار سے بہت جاندار ہے اور زندہ رہنے کا مستحق ۔