رام مندر: مسلمانوں کے سینے کا زخم

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(996)
*رام مندر: مسلمانوں کے سینے کا زخم__*

*آج کا دن آزاد بھارت کا سیاہ ترین دن ہے، سیکولرازم کے تابوت پر مظبوط کیل ٹھونکنے اور جمہوریت کی لاش پر سیاست کر کے ہندوستان کو دقیانوسیت اور دیومالائی طاقتوں کے حوالے کرنے کی جانب پرزور پیش قدمی ہے، یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ آزادی ہند میں شانہ بشانہ انگریزوں سے لڑنے کے بعد خود اپنے ہی ملک کے باشندے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوجائیں گے؛ بلکہ خون کی ندیاں بہانے پر آمادہ ہوں گے، آزادی کے نام پر مذہبی پابندیاں، اخلاقی جنگ اور اکثریت کا خوف بٹھایا جائے گا، ہجومی تشدد اور مذہبی تعارف پر واویلا ہونے لگے گا، اور وہ دن آئے گا کہ جن مسلمانوں نے یہاں کے باشندوں سے بڑھ کر اپنا خون، مال و جان پیش کیا تھا انہیں کی عبادت گاہیں خطرے میں آجائیں گی، وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ جنگ آزادی میں جانوں کا عطیہ اور جمہور ملک کو ترجیح دینے کا فیصلہ ایک بھول تھا، ایک ایسا سراب تھا جس کی ہر خطے پر حقیقت کھلتی جائے گی اور وہ کف افسوس ملنے اور اپنا سر پھوڑنے پر مجبور ہوجائیں گے، چنانچہ بابری مسجد کو شہید کیا گیا، پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ دوہرا سلوک ہوا، قتل و قتال ہوئے اور لاشوں کے منار بنادئے گئے، امید تھی کہ بھارت کے اعلی حکام، سپریم کورٹ اور اس کے ججز قانون و آئین کی بالادستی قائم رکھیں گے، ایک طویل جنگ لڑی گئی، ہر محاذ پر کام کیا گیا؛ لیکن سیاست کے ماہرین نے سیاست میں ایسی مضبوطی بنائی، ہندوازم کا ایسا رس گھولا اور رام کی بھکتی کا وہ ساز چھیڑا کہ سب کچھ اکثریت کیلئے ہو کر رہ گیا، منصوبہ بند طریقے سے مسلمانوں کوزندگی کے بہتے دھارے سے کاٹا گیا، انہیں بھارت کا غیر ذمہ دار اور غیر مستحق شہری بنا کر رکھ دیا.*
*یہی وجہ ہے کہ قانون نے بھی انہیں سوتیلے نظر سے دیکھا، اور خود سپریم کورٹ نے وہ تمام باتیں مانیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر کی جگہ پر نہیں بنائی گئی، اس کے بنیادی ڈھانچہ کو گرانا جرم تھا وغیرہ؛ اس کے باوجود ہندوؤں کے آستھا اور جذبات کو مدعی بنا کر بابری مسجد ان کے حوالے کردی گئی، دنیا خموش تماشائی بنی رہی، ایک چرچ پر استحقاق کے بعد بھی مسجد بنا لئے جانے پر پوری دنیا ایک آواز ہو کر مخالفت پر اتر آتی ہے، اس سے مذہبی رواداری کو ٹھیس پہونچتی ہے، لیکن اگر مسجد مسمار بھی کردی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، خود مسلمانوں نے کانوں میں روئی ٹھونس لی، ان کی رگ غیرت نہ پھڑکی، وہ قانون و آئین کی گہار لگاتے رہے، اپنے نام نہاد ہمدردوں کو پکارتے رہے، چیختے رہے؛ لیکن کسی نے ایک نہ سنی، مذہبی رواداری کے نام پر ایودھیا میں مسجد کیلئے ایک ٹکڑا دے دیا گیا، مگر اس کیلئے سرکاری فنڈنگ اور سرکاری لائحہ طے نہ کیا گیا؛ جبکہ رام مندر کیلئے خود سرکار نے پہل کی، ٹرسٹ بنایا گیا اور اس کی ماتحتی میں سارا کام انجام دینے کی ہدایت دی گئی، خود وزیراعظم نریندر دامودر داس مودی اس شیلا نیاس میں شرکت کی، کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ملک کی ترقی و تعمیر کی نئی بنیاد رکھی، دراصل وہ بتانے گئے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے، ان کی اکثریت کا ہے اور وہی یہاں کے حاکم ہیں، حتی کہ وزیراعظم بھی انہیں کا ہے، مسلمان صرف چناؤ کا ایک مہرا ہے.*
*اب حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان انتخابات میں بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتا، انہیں اس انداز سے تقسیم کردیا گیا ہے؛ کہ ان کے سارے ووٹ بے کار ہوجاتے ہیں، ایسے میں بھلا کون مسلمانوں کی سنے گا، آج مسجد کی شہادت کا دن ہے، اس کے اندر باطل کی پوجا اور حق کو دھکے مارنے کا دن ہے؛ لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا کہ باطل نے دائمی فتح پائی ہو، حق کو رسوا کیا گیا اور اسے دوبارہ موقع نہ ملا ہو، کعبہ مقدسہ کو تقریباً پانچ سو سالوں تک بت کدہ بنائے رکھا، کڑوروں چھوٹے موٹے صنم رکھے گئے، کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ جاہلیت کے اس دور میں اور تاریکی کی اس شب میں کوئی پو پھٹے گی اور حق کا بول بالا ہوگا، باطل کو نیزوں سے ڈھاہ دیا جائے گا، اور کلمہ طیبہ کی صدا گونج جائے گی، بیت المدس کو صلیبیوں نے اکھاڑہ بنایا تھا، جنگ کی مشق گاہ اور باطل کی پرستش کا اڈہ بنا دیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی للہیت و سوز کا بدل تھا؛ کہ پھر سے آزاد کروایا گیا، اس کیلئے عمر رضی اللہ عنہ اور پھر صلاح الدین ایوبی نے دستک دی، اگرچہ کہ یہ کشمکش اب بھی جاری ہے، اور اس وقت یہیودی مسلط ہیں؛ لیکن بلاشبہ یہ آج نہیں تو کل آزاد ہوگا، اگر یقین نہ آئے تو مسجد آیا صوفیہ کو دیکھ لیں، جس میں چھی??سی برس بعد لاالہ کی صدا گونجی ہے، اور اس دور میں یہ کارنامہ انجام پایا ہے جبکہ دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں سے اسلام پسندوں کیلئے خیر کی خبر آتی ہو، کل تک اتاترک کی ترکی میں کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ کارنامہ ہوگا؛ بلکہ ایسی سوچ رکھنے والے تختہ دار پر چڑھا دئے جاتے تھے.*
*واقعہ یہ ہے کہ اگر یہاں اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ باطل جھک جائے گا، اسلام شکست پالے گا، اللہ تعالی کا گھر اور اس کے پکارے جانے کی جگہ کا تقدس پامال کردیا جائے گا، اس کے دیار کو مسمار کر کے باطل کیلئے کھول دیا جائے گا اور دنیا بھی خموش رہے گی، سبھی چپی سادھے رہیں گے، کوئی کچھ نہ کہے گا؛ تو یاد رکھیں! قدرت الہی کی زبان کھلے گی، اس کے احکام صادر ہوں گے، کیونکہ یہ امت ہمیشہ ہمیش کیلئے ہے، یہ اسلام دائمی ہے، اگر اس کی کسی تصویر پر گرد ہڑگئی ہے تو اسے وقت صاف کردے گا، اور ایک ایسی اٹھان پائے گا کہ اسلام کا پرچم ہی بلند بانگ ہو گا، اسی کی قیادت ہوگی، اسی کی فوقیت ہوگی، اے بابری مسجد تو ہمیں معاف کرنا، ہماری نالائقی پر ہم شرمندہ ہیں؛ لیکن تو ہمارے سینوں میں محفوظ ہے، ہمارے جگر میں قائم ہے، ہمارے سوز میں موجود ہے، ہماری نسلوں میں تیرے تذکرے ہوں گے، ہمارا ہر بچہ تیری شہادت کو سنجوئے گا، اپنے سینے میں تیری تصویر پالے گا، کیونکہ تیری بحالی ہماری جانوں اور نسلوں پر قرض ہے، ہماری نیکیاں، اچھائیاں سب تجھ پر قربان ہیں، اے رب تو ہمارا گواہ رہنا ہمارے دل رنجور ہیں، ہم غمزدہ ہیں، بے بس و لاچار ہیں، تجھ سے امید اور قوت کے طلبگار ہیں، تو در گزر کر تو ہمیں ہمارے پیروں پر کھڑے ہونے کی توفیق نصیب فرما، ہم آج ان آنکھوں کے سامنے تیرے نام پر بنی مسجد کو فرعون و ھامان کے جاں نشینوں کے ہاتھوں میں جاتا دیکھ رہے ہیں، ہمارے اعصاب کمزور ہوگئے، ہماری سیاسی چال پست ہوگئی، ترکیبیں بے کار ہوگئیں، اذہان کند ہوگئے، کوششیں نامراد ہوگئیں؛ لیکن تو طاقتور ہے، تیری چالیں غالب آنے والی ہیں، ہمیں بصیرت و بصارت اور لائحہ کی توفیق عطا کر! نیز تیرے کرم سے بابری مسجد کی تعمیر اور اس کی شہادت کا مداوا کر کے ہماری جانوں سے بوجھ ہلکا کردے_*

✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
05/08/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔