روزہ  اخلاقی  تربیت  اور  ڈسپلن کا  ذریعہ  ہے

( *۔پیام رمضان-*)

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*قرآن مجید* اور احادیث نبویہ کے حوالے سے *رمضان المبارک* اور روزے سے جو ہدایات اور تعلیمات ملتی ہیں اور روزے سے جو مقاصد اور نتائج اخذ ہوتے ہیں نیز روزے کا جو مقصد اصلی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر خوف خدا ،تقوی ،صبر و ضبط، تحمل و برداشت انسانی ہمدردی و غمگساری ،انسانیت نوازی کا جذبہ پیدا ہو،اور ہمارے اندر نظم و ضبط اور اخلاقی ڈسپلن آسکے۔

*روزہ* کا مقصد اسلام کے نظام وحدت اور مسلمانوں کی عالمگیر اخوت اور باہمی اجتماعیت کا مظاہرہ بھی ہے ؛ کیوں کہ مسلمان ایک متعین مہینہ کے اندر ایک ہی ساتھ بیک وقت روزہ رکھتے ہیں، اس سے ان میں اتحاد و یکجہتی، باہمی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور اس سے ہم آہنگی کے جذبات کی نشو و نما اور مسلمانوں کے نظام اجتماعیت کو قوت و استحکام اور مضبوطی حاصل ہوتی ہے ۔

*روزہ* تذکیئہ روح تصفیئہ قلب ،اصلاح اعمال ،تہذیب اخلاق اور تعمیر سیرت اور اخلاقی ڈسپلن پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔

*حدیث شریف* میں اس طرف خاص رہنمائ کی گئ ہے ،چنانچہ *حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ* سے روایت ہے کہ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم* نے ارشاد فرمایا :

*اذا کان صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب ،فان سابه احد او قاتله فلیقل انی امرء صائم* (بخاری شریف کتاب الصوم)

کہ جب تم میں سے کسی شخص کے روزے کا دن ہو تو وہ بے ہودہ گوئ نہ کرے اور نہ شور کرے ۔ اگر کوئ شخص اس کو گالی دے ،یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں ۔

*اس* حدیث *رسول صلی اللہ علیہ وسلم* سے معلوم ہوا کہ *روزہ* صرف کھانا، پینا اور نفسانی خواہشات کو ایک متعین وقت تک چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزے کا ایک اہم تقاضا اور مقصد یہ ہے کہ روزہ دار شخص برے اخلاق و کردار اور تمام قسم کے نزاع و اختلاف، کشمکش اور کشاکش کو چھوڑ دے ،کسی بھی معاملے میں شور و غل اور شدت پسندی سے اجتناب کرے ،اگر کوئ شخص اسے مشتعل کرے، غصہ دلائے تب بھی وہ خاموشی اور درگزر سے کام لے ،اور کسی بھی حال میں خود کو مشتعل نہ ہونے دے اور نہ آپے سے باہر آئے ۔

اس حدیث سے اندازہ ہوتا کہ روزہ صرف ایک رسمی عمل نہیں ہے بلکہ روزے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کے اندر سنجیدگی، متانت ،تحمل ، قوت برداشت اور صبر و استقامت پیدا ہو ،روزہ انسان کے اندر گہرائ و گیرائ اور ایسی اسپرٹ پیدا کردے جو اس کے فکر و نظر اور قلب و دماغ کو بدل کر رکھ دے اور ایسی تبدیلی اور انقلاب پیدا کردے کہ روزہ دار کی شخصیت دوسروں کے لئے سراپا دعوت اور نمونہ و اسوہ بن جائے ۔

سچائی یہی ہے کہ حقیقی روزہ انسان کو بہت زیادہ سنجیدہ، باوقار اور شگفتہ مزاج بنا دیتا ہے ،اس کی زندگی اور شب و روز کے عمل میں سنجیدگی اور صبر و تحمل کا رنگ جھلکنے لگتا ہے ،دوسروں کا اشتعال انگیز اور منفی رویہ بھی اس کو سنجیدگی سے دور نہیں کر پاتا اور بے راہ روی کا شکار نہیں ہونے دیتا ہے ،وہ سوسائٹی اور سماج کا ایک پر سکون ممبر اور رکن بن جاتا ہے وہ کسی کے لئے پریشانی اور دقت و زحمت کا ذریعہ نہیں بنتا ،بلکہ اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی فکر میں لگ جاتا ہے ۔

غرض یہ مہینہ اخلاقی اور روحانی تربیت کا مہینہ ہے۔ یہ خصوصی عبادت اور ٹریننگ و تربیت کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں کم ہمت مسلمان کو بھی بندگی کا شوق نصیب ہو جاتا ہے، اور اس کے شب و روز میں عبادت کی لذت و حلاوت بد ذوق انسان کو بھی محسوس ہو ہی جاتی ہے۔

اس لیے ہمیں اس مہینہ کو سالانہ تربیتی مہینہ کے طور پر گزارنا چاہیے، اپنے اندر تبدیلی لانی چاہیے۔ اپنے اخلاق و کردار کو سوارنا چاہیے اور اپنے آپ کو مہذب اور پاکیزہ بنانا چاہیے اور ساتھ ہی ایک بہتر اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کرنے میں اس روحانی مہینہ سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

اس مبارک مہینہ کو غنیمت سمجھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اپنے دنیاوی مشاغل کو کم سے کم کریں۔

جس قدر ہوسکے نوافل کا اہتمام کریں۔

تلاوت قرآن اور ذکر و تسبیح میں اضافہ کریں۔

گناہوں سے بچنے کی پوری کوشش کریں۔اور کوئی گناہ ہوجائے تو فورا توبہ و استغفار کریں۔

صدقات و خیرات کریں۔ اور زکوۃ اہتمام سے نکالیں۔

مسکینوں اور محتاجوں کی خبر گیری کا اہتمام کریں۔

لغو، لایعنی اور فضول کاموں سے بچیں اور کسی کی کرادر کشی اور شمات اعداء سے احتراز کریں۔

اگر اس مہینہ کو ہم لوگوں نے اس طرح گزار لیا تو امید ہے کہ ان شاء اللہ دل میں نرمی پیدا ہوگی اور اصلاح نفس اور اصلاح معاشرہ کی راہ آسان ہوگی، اور یہ روزہ ہماری اخلاقی تربیت اور ڈسپلن کا ذریعہ بنے گا۔

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔