*روزہ* ،رمضان اور قرآن کا باہم گہرا ربط، خصوصی مناسبت اور مضبوط تعلق ہے ۔ اس سلسلہ میں کافی تفصیلات گزشتہ روز کے پیغام میں بیان کی گئی تھی،آج مزید کچھ روشنی اس پر ڈالی جائے گی بعض احباب کا تقاضا ہے کہ قرآن مجید چونکہ اصل کتاب ہدایت ہے اس لیے اس پہلو پر مزید روشنی ڈالی جائے حکم کی تعمیل میں دوسری قسط بھی حاضر ہے۔
*مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رح* اپنی معروف و مقبول کتاب ۰۰ارکان اربعہ۰۰ میں روزہ، رمضان اور قرآن کے اس خصوصی ربط و تعلق اور مناسبت خاص کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں :
*اللہ تعالی نے روزے رمضان میں فرض کئے ہیں، اور دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں برکتوں اور سعادتوں کا اجتماع بڑی حکمت اور اہمیت کا حامل ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا،اور گم کردہ راہ انسانیت کو ۰۰ صبح صادق۰۰ نصیب ہوئ ،اس لئے یہ عین مناسب تھا کہ جس طرح طلوع صبح صادق روزہ کے آغاز کے ساتھ مربوط کر دی گئی ہے، اسی طرح اس مہینہ کو بھی جس میں طریل اور تاریک رات کے بعد پوری انسانیت کی صبح ہوئ ،پورے مہینہ کے روزے کے ساتھ مخصوص کر دیا جائے ،خاص طور پر اس وقت جب کہ اپنی رحمت و برکت، روحانیت اور نسبت باطنی کے لحاظ سے بھی یہ مہینہ تمام مہینوں سے افضل تھا،اور بجا طور پر اس کا مستحق تھا کہ اس کے دنوں کو روزوں سے اور رات کو عبادت سے آراستہ کیا جائے، روزہ اور قرآن کے درمیان بہت گہرا تعلق اور مناسبت ہے، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں تلاوت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام فرماتے تھے ،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے لیکن رمضان میں جبرئیل علیہ السلام آپ سے ملنے آتے اس زمانہ میں سخاوت کا معمول اور بڑھ جاتا ،رمضان کی ہر رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت جبرئیل آتے اور قرآن مجید کا دور کرتے* ( متفق علیہ)
نزول قرآن کے مہینے میں روزہ فرض کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روزہ اس لیے ہے کہ وہ آدمی کو حامل قرآن بنائے۔ جس طرح پیغمبر کو حامل قرآن بننے کے لیے حراء کی تنہائیوں میں روزہ دار بننا پڑا تھا، اسی طرح ایمان والے کو اس کی اقتدا و پیروی کرنی ہوگی۔
غرض ان تفصیلات کا حاصل اور خلاصہ و لب لباب یہ نکلا کہ ہم رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور تقوی کی تربیت ہی قرار نہ دیں بلکہ اس عظیم الشان نعمت ہدایت پر بھی خدائے واحد کا شکر ادا کریں جو قران کی شکل میں اس ہستی نے عطا فرمائ ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایک عقلمند انسان کے لئے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صورت اگر ہوسکتی ہے تو صرف یہی کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لئے زیادہ تیار کرے،جس کے لئے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ ہم کو قرآن اس لئے دیا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالی کی رضا اور مرضی کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دنیا کو اس پر چلائیں ۔ اس مقصد کے لئے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے ،لہذا نزول قرآن کے اس مہینہ میں ہماری ذمہ داری صرف عبادت اور صرف اخلاقی تربیت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ خود اس نعمت قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے ۔
اسی تاریخی حقیقت کو *و لتکبروا اللہ علی ما ھداکم* میں واضح کیا گیا ہے اور روزے کا ابدی مقصد قرار دیا گیا ہے ۔
*لہذا* ضروت ہے کہ ہم قرآن مجید کو ریشم کے غلافوں سے نکالیں اس کی تلاوت کریں ،اس میں غور و فکر اور تدبر کریں ،اس کے حیات آفریں پیغام کو سمجھیں اور عام کریں ،اس کی روشنی میں سفر حیات طے کریں ،اس کے لائے ہوئے اصول اخلاق ،اس کی دی ہوئ معاشرتی اقدار ،اس کے وضع کردہ سیاسی قوانین، اس کے عطا کردہ اقتصادی و معاشی تصورات اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں اور زندگی کا پورا نظام اس کی ہدایت کے مطابق منظم و مرتب کریں ۔
قرن اول اور خیر القرون کے مسلمانوں اور ہمارے اسلاف نے اپنی زندگیوں اور شب و روز کے معمولات میں قران مجید کو حکمرانی کا یہی مقام دیا تھا اور اسی کے نتیجہ وہ دنیا کے حکمراں بنے تھے ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
آج بھی رمضان اور اس کے روزے اور اس کی عبادتیں اور تلاوت و تسبیحات جس امر کی یاد دہانی کراتی ہیں وہ یہی ہے کہ کیا ہم قرآن مجید کو اس کا اصل اور صحیح مقام دینے کو تیار ہیں؟ ہر ہر فرد بھی ،ملت اسلامیہ اور پوری انسانیت بھی کیا اس کے لئے تیار ہے ؟
*نزول قرآن کا جشن رمضان المبارک کے پاکیزہ اور متبرک مہینے میں مناتے وقت یہی وہ کانٹے کی بات ہے جسے ہر مسلمان کو اپنے دل سے اور امت مسلمہ کو اپنے اجتماعی ضمیر سے پوچھنا چاہیے، اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے، کیونکہ ہمارے مستقبل کا دار و مدار اور انحصار اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اسی سوال کے صحیح جواب پر ہے* ۔
*مشہور محدث امام دار الھجرہ حضرت امام مالک رح نے کیا پتے کی بات کہی ہے کہ اس امت کے آخر کی اصلاح بھی اسی سے ہوسکتی ہے، جس سے اس کے اول کی اصلاح ہوئ تھی ۔ یعنی قرآن!
و ھذا کتاب انزلناہ مبارک فاتبعوہ و اتقوا لعلکم ترحمون،
اور یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے ،ایک برکت والی کتاب ۔ پس تم اس کی پیروی کرو اور تقوی کی روش اختیار کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
لیکن افسوس کہ امت مسلمہ اس وقت قرآن مجید کی طرف سے غفلت کا شکار ہے۔ اس کتاب ہدایت کا وہ حق ادا نہیں کر پا رہی ہے، اس کو سمجھنا، اس پر غور و فکر کرنا تو دور کی بات ہے، ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو اس کی تلاوت سے بھی بے نیاز ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کتاب کو کتاب ہدایت قرار دیا ہے، ھدی للناس کہا ہے۔ یعنی تمام انسانوں کے لیے یہ ہدایت نامہ ہے۔انسان اگر فکری اور عملی گمراہی سے نجات چاہتا ہے۔ دل و دماغ کی تاریکی کو مٹانا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ قرآن کو اپنا لے۔ قرآن انسان کے لیے عبادت بھی ہے، نور بھی ہے دستور بھی ہے، منزل بھی۔ برہان بھی ہے،دلیل و حجت بھی ہے اور مقصد بھی۔لیکن قرآن کریم سے انسان اسی وقت ہدایت حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی، مفہوم اور پیغام کو بھی سمجھے، اس میں غور و فکر کرے، اس کی آیات میں تدبر سے کام لے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرے۔ دنیا کی ہر کتاب سمجھ کر پڑھی جاتی ہے، یہ صرف کتاب اللہ کا معاملہ ہے کہ بہت سے لوگ اسے بغیر سمجھے پڑھتے ہیں۔ اور اس کے معانی و مفہوم کو سمجھنا صرف علماء کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یہ ایک وسوسہ ہے جو اللہ کی کتاب سے دور کرنے کا ذریعہ ہے۔ دنیا کی سینکڑوں زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہوچکا ہے یہ ترجمہ عوام الناس کے لیے ہی تو کیا گیا ہے تاکہ وہ اس کتاب ہدایت کو سمجھ سکیں۔ لیکن عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ علماء اور اہل علم کی نگرانی میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ ترجمہ پڑھ کر خود مفسر بن جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کردیں اور قران مجید کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے لگیں۔ جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں جو عربی کے ایک حرف سے واقف نہیں ہوتے اور مفسر بن جاتے ہیں۔
غرض قرآن مجید کی تلاوت(اور خاص طور پر ماہ رمضان میں ) اس کے معنی و مفہوم پر غور و تدبر کرنا، سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرنا، اس کی تعلیمات کو عام انسانوں تک پہنچانا امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کی ذمہ داری ہے، قرآن مجید کا یہ ایسا حق ہے جس کی جواب دہی سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اس کے لیے ہر ایک کو اپنی صلاحیت، استعداد اور استطاعت کے مطابق آگے آنا ہوگا۔ اور اس کو اپنی زندگی کا مشن بنانا ہوگا۔ یہ کام تحریر تقریر تدریس نجی گفتگو اور عام ملاقاتی مکالموں کے ذریعے ہم انجام دے سکتے ہیں۔