روزے کے بعض مقاصد اور فوائد

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

روزے کے بعض مقاصد اور فوائد

*روزہ* کے بے شمار فوائد و مقاصد ہیں،ایمانی ، روحانی اور عرفانی فوائد تو ہیں ہی، اس کے علاوہ جسمانی اور مادی فوائد بھی اس سے جڑے ہوئے ہیں، کہ روزہ کے ساتھ بعض ایسی عبادت جیسے صدقئہ فطر اور فدیہ کو جوڑ دیا گیا ہے، جس سے غرباء اور مساکین کا براہ راست فائدہ جڑا ہوا ہے ۔

*قرآن و حدیث* میں بھی اس کے فوائد بیان کئے گئے ہیں اور علماء کرام اور ماہرین شریعت نے بھی روزے کے اسرار و مقاصد پر بہت وقیع اور دلنشین گفتگو کی ہے۔

*روزہ* کے بعض مقاصد اور فوائد کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں تاکہ روزہ کی عظمت اور اہمیت کا ہمیں اندازہ ہوسکے اور دوران روزہ ہمیں ان اسرار و مقاصد کا استحضار رہے ۔

(۱ ) روزہ کا سب سے بڑا مقصد تقوی اور دل کی پرہیز گاری اور صفائ ہے ،روزہ کی اس حقیقت اور مقصد کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے : ۰۰ یا ایھا اللذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی اللذین من قبلکم لعلکم تتقون۰۰ (سورہ بقرہ ۲۳)

اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے کو فرض کیا گیا، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا، تاکہ تم تقوی اختیار کرو ۔

تقوی کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے حساب اور جزا سزا پر یقین رکھتے ہوئے اور اللہ کی پکڑ اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے تمام برے کاموں اور بری باتوں سے بچا جائے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلا جائے۔

اور بقول حضرت سید سلیمان ندوی رح ۰۰ تقوی دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک معلوم ہونے لگتی ہے اور نیک باتوں کی طرف اس کو بے تابانہ تڑپ ہوتی ہے ۔

*تقوی* کی حقیقت کیا ہے اس سلسلے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ایک سبق آموز واقعہ ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ *تقوی* کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: *تقوی* نام ہے رب جلیل سے ڈرنے اور خوف کھانے کا،قرآنی احکام پر عمل کرنے کا اور اپنے آخری سفر کی تیاری کرنے کا ۔ انہوں نے *تقوی* کو تین باتوں کا مجموعہ قرار دیا ،اول تو یہ کہ انسان اپنے رب سے ڈرے اور جب بندہ اپنے رب سے ڈرے گا تو پھر وہ اپنے رب کی عبادت بھی کرے گا ۔ اور جب وہ قرآن پر عمل کرے گا تو یقینا اس میں جتنے احکام ہیں انہیں مانتے ہوئے اپنی عملی زندگی میں نافذ کرے گا اور جن باتوں سے قرآن میں روکا گیا ہے ان سے اپنے آپ کو روکے گا ۔ اسی طرح آپ نے فرمایا کہ اپنے اخری سفر کی تیاری کرے گا اور جس شخص کو آخرت کی فکر ہو جائے وہ کامیاب و کامران اور سوجھ بوجھ والا انسان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ دانا اور عقلمند آدمی وہ ہے جو آخرت کی فکر کرے اور اپنا محاسبہ کرتا رہے ۔

تقوی یعنی پرہیز گاری کی تعلیم اسلام کی اصولی اور بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔

*غرض* روزے کا بنیادی اور اساسی مقصد حصول تقوی و طہارت ہے ۔

(۲ )روزہ مالداروں اور امیروں کو احساس دلاتا ہے کہ فاقہ اور بھوک میں کیسی اذیت اور تکلیف ہوتی اور بھوک اور پیاس کی تکلیف کیسی ہوتی ہے؟ اس وقت اپنے غریب اور فاقہ مست بھائیوں کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ چند لقموں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا بڑا اجر و ثواب کا کام ہے ،جو خود بھوکا نہ ہو اس کو بھوک کی اور جو خود پیاسا نہ ہو اس کو پیاس کی تکلیف کا احساس کیوں کر ہوگا ؟

(۳ )روزہ بہت سے گناہوں سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے اس لئے بہت سے گناہوں کا کفارہ بھی ہے ،اسلامی شریعت میں بہت سے موقعوں پر روزہ کو گناہ کا کفارہ بتایا گیا ہے،اگر قسم کھا کر کوئ اس کو توڑنے کا گناہ کرے تو اس کی معافی کی صورت یہ ہے کہ دس مسکینوں کو کھانا کھلائے اور اگر اس کی سکت نہ ہو تو تین دنوں تک روزہ رکھے ۔

(۴ ) انسان خواہ کتنا ہی ناز و نعم اور آرام و آسائش میں پلا بڑھا ہو اور مال و دولت سے مالا مال ہو ،تاہم گردش زمانہ اور زندگی کی کشمکش اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو مشکلات کا عادی اور سختیوں کا خوگر بنائے تو گویا روزہ ایک قسم کی جبری ،جسمانی ورزش بھی ہے جو مسلمان کو سال میں ایک مہینہ کرائ جاتی ہے ،تاکہ وہ ہر موسم کے جسمانی مشکلات کو جھیلنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہے اور دنیا کی کشمکش، جدوجہد اور سختی و محنت کا پوری طرح مقابلہ کرسکے ۔

(۵ ) روزہ کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ہر مسلمان کو اس طرح بسر کرنا چاہیے کہ دن رات میں ایک وقت کھانا کھائے اور ہو سکے تو ایک وقت کا کھانا اپنے فاقہ زدہ و محتاج اور غریب و نادار بھائیوں کو کھلا دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۶ ) *روزہ* جس طرح گناہوں سے بچاتا ہے اسی طرح جسمانی بیماریوں سے بھی بچاتا ہے جسم کے فاسد مادہ سے بیماریاں جنم لیتی ہیں اور روزہ اسی فاسد مادہ کو دور کرتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ پتہ چلا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے جسم میں کیا مفید تبدیلیاں اور قوت مدافعت پیدا ہوتی ہے ۔ اور کس طرح روزہ رکھنے سے زہریلے اثرات اور مادے ختم ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔ روزے سے جسمانی قوت مدافعت بڑھتی ہے اور مدافعت کا نطام فعال ہو جاتا ہے ۔ اس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بہتری پیدا ہوتی ہے ۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں، بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود ہوں تو ان کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے روزے کے لئے جو اوقات مقرر کئے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں ۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل اسی مقررہ وقت کے اندر ہوتا ہے ۔ بھوکا رہنے کا عمل اس سے لمبا اور طویل ہو تو اس کے نتیجے میں پٹھے کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصان دہ سرگرمیاں شروع ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعالٰی نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کئے ہیں وہ ہماری صحت کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں ۔ مسلم ملکوں میں اور یورپ و امریکہ میں بھی روزے پر برے پیمانے پر تحقیق اور ریسرچ کا عمل جاری ہے ۔ ( مستفاد ہفتہ وار نقیب جون ۲۰۱۵ء)

*حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ* سے روایت ہے کہ *رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم* نے فرمایا : ۰۰ روزہ رکھا کرو تندرست ہو جاو گے ۰۰ اگر چہ محدثین نے اس حدیث پر کلام کیا ہے بعض نے موضوع تک بھی کہا ہے لیکن بعض کے یہاں یہ حدیث مقبول درجہ کی ہے اس لئے اس کو اس مقصد اور مدعی کے لئے پیش کیا جاسکتا ہے ۔

تجربے اور مشاہدے سے بھی یہ ثابت ہے کہ اکثر حالتوں میں انسان کا بھوکا رہنا اس کی صحت کے لئے ضروری ہے،مختلف بیماریوں کا یہ قطعی علاج ہے ،طبی ہدایات بھی ہیں کہ کم از کم ہفتہ میں ایک دن یا ایک وقت کھانا ناغہ کیا جائے،اسلام میں اسی وجہ سے ہفتہ وار نفل و مستحب روزے بھی ہیں ۔

(۷ ) *روزہ* انسان کی صحت اور درازی عمر کا بھی سبب ہے ،چند برس پہلے ہندوستان اور جرمنی کے اشتراک اور تعاون سے کئے گئے تفصیلی مطالعہ اور تحقیقات کے بعد یہ بات ظاہر ہوئ ہے کہ روزہ سے انسانی زندگی طویل ہو سکتی ہے ۔

(۸ ) *روزہ* کا ایک مقصد اسلام کے نظام وحدت اور مسلمانوں کی عالمگیر اخوت اور باہمی اجتماعیت کا مظاہرہ بھی ہے، کیونکہ سارے مسلمان ایک متعین مہینے کے اندر ایک ہی ساتھ بیک وقت روزہ رکھتے ہیں، اس سے ان میں اتحاد و یکجہتی، باہمی اخوت و بھائی چارگی اور ایک دوسرے کی ہمدردی اور اس سے ہم آہنگی کے جذبات کی نشو و نما اور مسلمانوں کے نطام اجتماعیت کو قوت و استحکام حاصل ہوتا ہے ۔

(۹ ) روزہ میں کھانے پینے اور جماع سے رکنا ہوتا ہے، جو اللہ تعالی کی صفات کے مشابہ ہے، *و ھو یطعم ولا یطعم* وہ کھلاتا ہے کھاتا نہیں ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے : ۰۰ جس نے اللہ تعالی کی صفات میں سے کسی صفت سے مشابہت اختیار کی وہ جنت میں داخل ہوگا ۰۰ ۔

(۱۰ ) *روزہ* ملائکہ سے مشابہت کی دولت بخشتا ہے کہ وہ بھی نہ کھاتے پیتے ہیں، نہ ازدواجی تعلقات رکھتے ہیں ۔

(۱۱ ) روزہ مخفی اور پوشیدہ عبادت ہے،جس کو سوائے اللہ تعالی کے کوئ نہیں جانتا اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ خفیہ عبادت ظاہری عبادات سے ستر درجہ فضیلت رکھتی ہے ۔

(۱۲ ) *روزہ* میں نفس کی مخالفت ہوتی ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے نفس کی مخالفت کی اور اس کو مغلوب کیا وہ نجات کو پہنچ گیا ۔

(۱۳ ) *روزہ* شیطان کے خلاف جہاد ہے، شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح دوڑتا ہے ،جب کھانا پینا بدن کو نہیں ملتا ہے ،رگیں لنگ ہوجاتی ہیں تو شیطان مقہور ہو جاتا ہے ۔ گویا روزہ تریاق ہے جو نفسانی زہروں کو دور کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔

(۱۴ ) *روزہ* تکبر کو کچلتا ہے، عجب و نخوت کی بیخ کنی کرتا ہے، بے مائیگی ،فروتنی، مسکنت اور تواضع پیدا کرتا ہے ۔

(۱۵ ) *روزہ* کی تکلیف و مشقت روزہ دار کو درس دیتی ہے کہ *اللہ تعالی* کے دوسرے احکام کو انجام دیتےبوقت جو مشقت پیش آئے اسے بھی بطیب خاطر برداشت کرنا چاہیے، کیونکہ مشقت کی زیادتی کے مطابق اجر و ثواب ملتا ہے ۔

(۱۶ ) *روزہ* سے انسان کو صبر و تحمل کا بھی درس ملتا ہے کہ دیگر موقعوں پر بھی صبر و تحمل کا دامن نہیں چھوٹنا چاہئے ،خاص طور پر غصہ کی حالت میں آپے سے باہر نہیں ہونا چاہئے ۔

*اللہ تعالٰی* ہم تمام ایمان والوں کو روزے کے ان مقاصد و فوائد کو سمجھنے اور ان کو مستحضر رکھ کر روزہ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین

(مستفاد زاد المعاد / حجۃ اللہ البالغہ / سیرت النبی جلد ۵/ ارکان اربعہ)

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔