مولانا رئیس احمد جعفری ندوی رح نے نقوش سیرت رسول ﷺ نمبر میں اپنے مضمون "سرور کائنات کا رویہ منافقوں کیساتھ " کی تمہید میں تحریر فرمایا ہے کہ :
"کھلے ہوئے
دوست اور کھلے ہوئے دشمن کے ساتھ طرز عمل متعین کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی، یہ دوست ہے وہ دشمن ہے۔ دوست اس لیے کہ مورد لطف و کرم بنے اور دشمن اس لیے ہے کہ ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے۔ لیکن دشمن کی ایک قسم اور ہوتی ہے، یہ قسم ہے منافقوں کی۔ یہ اپنے تئیں دوست ظاہر کرتے ہیں، دوستی کا عوامی دعویٰ کرتے ہیں، پیمان رفاقت بڑے زور شور سے استوار کرتے ہیں، لیکن در پردہ دشمن ہوتے ہیں، دشمنوں سے ساز باز رکھتے ہیں، ہر وقت تخریب کے درپہ رہتے ہیں، سازش کرتے ہیں، نقصان پہنچاتے ہیں، تباہ و برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ یہ دشمن کی سب سے بدترین خطرناک اور ناقابل برداشت قسم ہے۔ ایسے لوگ جب برافگندہ نقاب ہو جائیں، تو انہیں معاف نہیں کیا جاسکتا، ان پر لطف و کرم کی بارش نہیں کی جاسکتی، انہیں مورد مہر و کرم نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ صرف اس قابل ہوتے ہیں کہ جہاں ملیں کچل دئیے جائیں۔ جہاں ان کا سراغ لگے، پامال کر دئیے جائیں۔ جب یہ ہاتھ آئیں ان کے جسم و جان کا رشتہ بے تامل منقطع کر دیا جائے۔ زمانہ قبل از تاریخ میں بھی یہی ہوتا تھا۔ دور تاریخ کے آغاز میں بھی ایسا ہی ہوا اور اب کہ دنیا عمرانیت اور حضارت کے اوج کمال پر ہے، یہی اصول کار فرما ہے، سچ تو یہ ہے کہ بغیر اس کے تطہیر کا کام نہیں چل سکتا، نہ نظم قائم ہوسکتا ہے، نہ امن بحال ہوسکتا ہے، نہ دوستوں کی شناخت ہوسکتی ہے، نہ دشمنوں سے نجات مل سکتی ہے، (نقوش رسول نمبر ٣/ ۵۱۹)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور وہاں کے ماحول میں رہ کر اسلام کی تبلیغ کا اور کھل کرآپ کو موقع ملا ، تو مدینہ میں ایک مختصر تعداد ایسے لوگوں کی رہی ، جو بظاہر مسلمان تو ہوگئے ، لیکن اندر اندر مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتے رہے اور در پردہ وہ مشرکوں اور یہودیوں سے ملے رہے اور اسلام کے بیخ و بن کو اکھاڑنے میں یہود و مشرکین سے ساز باز کرتے رہے، اس طبقہ کی سرداری عبداللہ بن ابی کرتا تھا۔ منافقین کی شرارتوں کا تذکرہ قرآن مجید کی متعدد آیتوں میں بیان کیا گیا ہے، بلکہ ایک مستقل سورت اس نام سے ہے۔ مدینہ کے ان منافقین کی طرف ایک آیت میں یوں اشارہ کیا گیا : *ومن اھل المدینۃ مردوا علی النفاق*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن سے منافقین بے نقاب ہوگئے اور ان کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ نے منافقین کے فتنے اور ان کی شرارتوں کا مقابلہ بڑی حکمت سے کیا اور ان کے زور و طاقت کو کمزور کرنے میں بہت دانشمندی اور حکمت سے اقدام کیا تاکہ کہیں خود مسلمانوں میں انتشار نہ ہو جائے اور دشمن کو افواہ اور اور غلط بیانی کا موقع نہ مل سکے۔ ان خطرناک دشمنوں سے نپٹنے کے لیے جس کمال تحمل و برداشت۔ صبر اور حکمت سے کام لیا اس کی مثال دنیا کی کسی اور جگہ نہیں ملتی۔ کہ سب سے خطرناک دشمن کو بھی آپ نے معافی کا پروانہ دیا اور حکمت کے ساتھ اس کے زہر کی کاٹ بھی کی۔
آج بھی مسلمانوں کے سامنے ایک تعداد اور طبقہ ہے جو اندر رہ کر باہر کے لیے کام کر رہا اور دشمنوں کو کمک اور مواد فراہم کر رہا ہے۔ یہ لوگ چند دنیاوی مفاد اور عہدے اور کرسی کی لالچ میں مسلمانوں کے خلاف دشمن کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور ان کو قوت پہنچا رہے ہیں، بعض نئے فارغین بھی پیسہ اور روپیہ کے لیے دشمن کی مدد ترجمہ اور مواد کی شکل میں دشمن کو فراہم کر رہے ہیں، ان حالات میں ہمیں ان آساتین کے سانپ ???? سے بڑی حکمت سے نپٹنا ہے اور ان کے زہر اور ڈنک کا علاج کرنا ہے تاکہ یہ اپنی موت آپ مر جائیں۔
نفاق در حقیقت انسان کے ظاہر و باطن کے باہمی اختلاف کو کہتے ہیں، نفاق ہر زمانہ کا ایک خطرناک مرض رہا ہے۔ نفاق سے انسان کا نور بصیرت سلب ہوجاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر ایک کو اس سے پناہ مانگنے کی تاکید کی گئی ہے۔ نفاق درحقیقت منفی ذہنیت کی پیداوار ہے، نفاق اتنی بری خصلت ہے جو انسان کو پستی کی آخری حد تک پہنچنا دیتی ہے۔ یہ ایک برائی نہیں بلکہ یہ بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ نفاق انسان کی حق بینی کی صلاحیت کو فنا کردیتا ہے۔
منافق کی مثال بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی مثال اس اوارہ بکری کی سی ہے جو نر کی تلاش میں دو ریوڑوں کے درمیان کبھی اس طرف اور کبھی اس طرف ماری ماری پھرتی ہے۔ ۔۔۔۔مسلم۔۔۔۔
اس حدیث میں نفاق کی نفسیاتی حقیقت کو ایک موثر مثال کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے۔ منافقوں کو محض دنیوی مفاد اور منفعت عزیز ہوتی ہے۔ ان کی نگاہ صرف اس پر مرکوز ہوتی ہے کہ اپنی جان اور مال کی حفاظت کیوں کر ہو۔ ان کے اندر حالات سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ وہ عافیت کے متلاشی ہوتے ہیں۔ خواہ یہ عافیت کسی کے یہاں بھی مل سکے ۔ انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی کہ یہ عافیت پسندی دنیا یا آخرت کہیں کا بھی انہیں رہنے نہیں دے گی۔۔۔ (مستفاد کلام نبوت /٢)