???? *صدائے دل ندائے وقت*????(995)
*سب سے بڑا جھوٹا اخلاق مند ہے.*
*معاشرے کی تقسیم حیران کن ہے، انسانی اقدار و اخلاق کی تشریح بھی خود ساختہ ہے، انسان اور انسانیت نوازی کی باتیں اور اس کا معیار بھی صحیح نہیں ہے، آج سوسائٹی کا چور، لٹیرا، بدمعاش سب سے زیادہ اخلاق مند مانا جاتا ہے، جس نے پیسے جمع کرلئے ہوں، لوگوں کو دھوکہ دینا پیشہ ہو، ہر کسی کے جیب پر نظر رکھتا ہو، انسانیت کو راحت کے نام پر سودی کاروبار میں الجھا رکھا ہو اور جس کی زبان پر جھوٹ کا پلندہ رکھا ہوتا ہو تو وہی سب سے زیادہ اخلاقی اقدار کا پاسدار ہے، اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں_! آپ پائیں گے کہ جس نے لوگوں پر طاقت و قوت کی دھونس جما رکھی ہو، جس نے خاندانی رعب و داب بٹھا رکھا ہو، جس نے تعلیم کے نام پر بہت ساری سندیں جمع کرلی ہوں، جو لوگوں کو چکنی چپڑی باتوں میں ملوث کر کے اپنا کام لینے کا ہنر جانتا ہو، جو انسان کو صرف فائدے اور سودے کی نظر سے دیکھتا ہو، جس کی طرف انگشت نمائی اس لئے کی جاتی ہو کہ وہ "صاحب" ہیں، وہ دفتر کے مالک ہیں، وہ سرکار کا نوکر ہے، ان کے پاس گاڑی اور بنگلہ ہے، ان کی تنخواہ بھاری بھرکم ہے، انہوں سب کو پیچھے چھوڑ کر اپنا کام نکالا ہے، وہ سب سے عالی اور سب سے برتر ہیں، بس وہی سب سے بڑا اخلاق کا پیکر، انسانیت کا مسیحا، سماج کا دردمند اور انسان دوست و انسان نواز ہے، نہ جانے کیوں ہماری نگاہیں ایسی شخصیات تلاش کرتی رہتی ہیں جس سے ہم مبہوت ہو سکیں، جس ہمارے سینے میں چھوٹے پن کا احساس پیدا ہوسکے، جو ہماری سوچ سے الگ ہو، جس نے سماج کو انگلیوں پر رکھا ہو، جس تک ہر کوئی نہ پہونچ پاتا ہو، تو سمجھ جائیں کہ وہی ان کے نزدیک سب کچھ ہے، اچھائیوں کی گنگا انہیں کے گھر سے بہتی ہے، انہیں کے گھر بہتری کا شجر لگتا ہے، ان کا ہر پھل ذایقہ دار، میٹھا اور دلچسپ ہوتا ہے، وہی ہمارا انصاف کریں گے، انہیں سے گہار لگائی جائے گی، وہی سچ اور جھوٹ کا فرق بھی بتائیں گے.*
*اب وہ دور لد گئے جب انسان کو انسانیت سے پہچانا جاتا تھا، اس کے دل کی اچھائی، سماج کیلئے قربانی اور انسان دوستی کیلئے عزت دی جاتی تھی، جس کسی کا دل صاف ہو جو انسانوں کے کام آئے، جس کی زبان سے محبت کا رس ٹپکے، جس کی سوچ و کردار سے معاشرے کی اونچ نیچ پر زد پڑے، جس کی دولت بھی عوام، کمزور، غریب و فقراء کے کام آئے، اب وہ زمانہ بھی بھول گئے جب انسان کو اپنائیت، محبت، دوستی، اخلاقی اقدار اور انسانی زندگی کی رونق کیلئے پہچان ملتی ہو، اب سینوں میں وہ دل کہاں؟ زبانوں پر وہ چاشنی کہاں؟ اپنوں میں وہ اپنائیت اور ہمدردی کہاں؟ رواداری گم ہوگئی ہے، مساوات کا تصور خیال ہوگیا ہے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلم سماج میں بھی اسی مرض کا مارا ہے، جس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کو انسان کے ناتے پر یکجا کیا تھا، ان کے مابین درد و محبت اور آنسوؤں کا رشتہ استوار کیا تھا، جنہیں آپس میں ایک دیوار کے مانند قرار دیا تھا، انسانیت کا یہ معیار یہ بتایا تھا کہ انسان انسان کا دوست ہوجائے، انسان ضرر رساں نہ ہو، اس کا پڑوسی خوش ہو، اس کے اپنے غم نہ کھائیں، انسانیت کو اس سے فائدہ ہو، دنیا کو وہ کچھ ایسا دے کر جائے جو صدقہ جاریہ ہو، جس سے پورا دنیا فیض پائے، اس کے لگائے گئے پود سے ہر کوئی ثمر آور ہو، حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان اقدار کو پامال کردیا، اپنے پیروں تلے روند دیا، دنیا کی چاہت، پیسے کی ہوس، اور دولت کی خواہش، بڑا بننے کا جنون، سبقت لے جانے کا پاگل پن ان سب نے ہمیں کھوکھلا کردیا، ہم انسان سے زیادہ ایک مشین بن کر رہ گئے، دل کی دنیا سے محروم، درد کی لذت سے ناآشنا اور محبت کے سوز سے بے پرواہ ہوگئے، آہ__ ہم نے سب کچھ لٹا کر یہ کیا پایا ہے؟ اندرون کو کھوکر یہ کیا حاصل کیا ہے؟ انسان یہ کس دلدل میں جاگرا؟ یہ کس دنیا کا باشندہ بن بیٹھا؟*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
04/08/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔