سرکار پر اعتماد نہیں ہے

???? صدائے دل ندائے وقت???? (883)
"سرکار پر اعتماد نہیں ہے".

*سورت جو گجرات کا خوبصورت ترین اور مصروف ترین شہر ہے، وہاں مزدوروں نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی ہے، وہ سڑکوں پر آگئے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگے، انہوں نے شکایت کی کہ ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں ہیں، وہ کئی روز سے بھوکے ہیں، تو وہیں بھوپال میں ایک کالونی کی تمام خواتین سڑکوں پر احتجاج کرنے لگیں اور یہ کہنے لگیں کہ محکمہ پولیس ہو یا کوئی اور سرکاری عملہ ان کی کوئی بات نہیں سنی جاتی، وہ گھروں سے نکلنے پر مجبور ہیں، ان تک یومیہ ضرورت کی چیزیں بھی نہیں پہونچائی جا رہی ہیں، شکایت کرنے پر پولس ڈنڈے مارتی ہے، اس بھیڑ میں بزرگ خواتین بھی شامل تھیں، آج ہی ممبئی میں لوگوں نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے ہوئے سڑکیں پاٹ دیں، پنجاب میں ایک شخص پولس والے کا ہاتھ کاٹ دیا، کیونکہ اس سے گھر سے نکلنے کی وجہ پوچھی گئی تھی، اور اجازت نامہ مانگا گیا تھا، یہ دو چند مثالیں ہیں، ورنہ خدشہ یہ ہے کہ کچھ ہی دنوں میں پورے ملک کے اندر یہی نظارہ دکھائی دے گا، لوگ سرکاری قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاک ڈاؤن توڑنے پر مجبور ہوجائیں گے، کیونکہ دیش کے چالیس کروڑ مزدور بھوکے ہیں، لاکھوں کسان اپنی کھیت سے فصل نہیں کاٹ سکتے، اور جنہوں نے فصل کاٹ لی ہے ان کا اناج بوریوں میں بند ہے، ان کا دام نہیں مل سکتا، محنتانہ نہیں مل سکتا، ایسے میں آخر کہاں سے اپنی ضرورت پوری کریں؟ سرکار کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے راشن، پیسے اور یومیہ ضرورت کا سامان گھروں تک پہونچا دیا ہے، مگر زمینی حقیقت کچھ اور ہی ہے، رپورٹس بتلاتی ہیں کہ جن لوگوں کو امدادی رقوم پہنچی ہیں، وہ عشر عشیر بھی نہیں ہیں.* *مستقل ایسی خبریں گردش کر رہی ہیں، جہاں لوگ بھوکے پیاسے ہیں، مزدور پریشان ہیں، اپنا ایک وقت کا کھانا روک لیتے ہیں تاکہ دوسرے دن اسے کھا سکیں، دہلی حکومت جو بہت حد تک متحرک نظر آتی ہے، وہاں بھی مزدور ایک وقت کا ہی کھانا کھا رہے ہیں، پرائیویٹ فاؤنڈیشن لوگوں کی مدد کر رہے ہیں؛ لیکن یہ کب تک کریں گے، ایک وقت آئے گا کہ وہ خود مدد کے محتاج ہوجائیں گے، دنیا بھر میں سرکاریں اس کرونا وائرس سے لڑنے کیلئے خزانے کے منہ کھول رہی ہیں، ملکی معیشت کا ایک بڑا حصہ اس کیلئے وقف کر رہی ہیں، مگر اس ملک میں سرکار نے خزانے پر تالا ڈال لیا ہے، اسی لئے کیرلا کے ایک منتری نے نیشنل نیوز ٹی وی پر شکایت کی کہ سرکار اس وقت بہت پیچھے ہے، وہ صوبائی حکومتوں کی مدد نہیں کر رہیں ہے، اور صوبے خود اپنے دم پر اس وائرس سے جنگ کر رہے ہیں، بہت بات ہوئی تو ایک بار پھر پندرہ ہزار کروڑ روپے دئے گئے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وائرس سے نمٹنے کیلئے اور پھر اس کے بعد ملکی معیشت کی بحالی کیلئے لگ بھگ پانچ لاکھ کروڑ سے لیکر پندرہ لاکھ کروڑ تک کی ضرورت ہے، امریکہ نے اپنی معیشت کا پانچ ٹریلین اسی کیلئے وقف کردیا ہے، مگر ملک عزیز کے سربراہان مستقل ماہرین کو ان دیکھا کر رہے ہیں، انہوں نے اب تک اس وائرس کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے، صرف بھاشن کے وقت خدو خال پر لکیریں لے آتے ہیں، اور کسی ماہر ایکٹر کی طرح اپنا رول ادا کر جاتے ہیں، چنانچہ اموات کی تعداد لگاتار بڑھتی جارہی ہے.* *حقیقت یہ ہے کہ متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی جارہی ہے؛ کہ اب ملک معاشرتی منتقلی کے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے، بلکہ بہت سے ماہرین کہتے ہہ کہ وہ مرحلہ شروع ہوچکا ہے، یعنی اب اس وائرس کا سرا سمجھ نہ آئے گا، کسی کی نشاندہی نہ ہوپائے گی، اور پھر موت کا ایک ننگا ناچ ہوگا، علاج کے بنا لاشیں برآمد ہوں گی؛ ویسے بھی ملک کی معاشی اور میڈیکل کی کیفیت دگر گوں ہے، اسی لئے جب سرکار نے اعلان کیا کہ وہ سبھی کا چیک اپ کر لیں گے، کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن عوام نے پھر بھی ان پر اعتماد نہ کیا، اور خود ہی بند وبست کرنے لگے، آخر کیسے بھروسہ ہوگا، اب تک جتنی بھی یوجنائیں جاری کی گئی ہیں، ان سب کو کس حد تک کامیاب بنایا گیا ہے، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، سرکار اپنی ویب سائٹ پر کہتی ہے کہ اس نے کسانوں کے کھاتے میں پیسے پہونچا دئیے، ضرورت مندوں تک راشن پہونچا دیا، مگر زمینی رپورٹس صاف بیان کرتی ہیں کہ اب تک اس کا دائرہ بہت ہی تنگ ہے، عوام کو پیسے پہونچے ہی نہیں، راشن اب تک ملا ہی نہیں، چنانچہ نوئیڈا، لکھنؤ اور متعدد بڑے شہروں میں جب مکمل پابندی عائد کی گئی، ان شہروں کو مکمل طور پر لاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا.* *اس اعلان کے بعد فورا اعلی رہائش کے لوگ بھی راشن دکانوں کے سامنے قطار میں کھڑے ہوتے نظر آئے، ان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے یہی کہا کہ سرکار کا کوئی بھروسہ نہیں ہے، انہوں نے جتنے وعدے کئے ان سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، یہاں تک کہ جس فون نمبر کو بطور امداد جاری کیا گیا تھا، اگر کوئی اس پر فون کرے تو کوئی فون اٹھاتا نہیں، ضرورت کی بات کی جائے تو کوئی سنتا نہیں ہے، ملک میں ایسی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ کئی گھرانوں نے بھوک کی وجہ سے خودکش کر لی، اب ایسے میں لاک ڈاؤن کا کیا مطلب رہے گا، وائرس کو کیسے روکا جائے گا، اس کا کوئی جواب نہیں. سچ جانیے! سرکار نے جتنی اسکیمیں جاری کی ہیں اگر ان سب کو میدانی سطح پر برت لیا جائے تو آپ کو کمانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، راشن سرکار دینے کا وعدہ کرتی ہے، کسان یوجنا، سمان ندھی، منرےگا، اور پھر بچے ہوں تو ان کی تعلیم مفت، شادی کیلئے پیسے وغیرہ سب کچھ تو ہے؛ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سب کچھ کاغذ پر ہے، ویب سائٹ پر ہے، لوگوں کو ان کی سہولتیں نہیں ملتیں، ایک سو تیس کروڑ لوگوں میں دو چند فیصد لوگ اگر ان سہولیات کو پالیں تو انہیں شمار میں نہیں لایا جا سکتا، ایسے میں لاک ڈاؤن اور پھر سرکار سے بے اعتمادی ایک سوال ہے، آخر کیسے ملک اس وائرس سے نمٹے گا اور کیسے غرباء اپنی زندگی بچا پائیں گے، وقت بہت نازک ہے، تیار ہوجائیں، ہر ایک میدان میں متحرک ہوجائے، جو بن سکے وہ کر گزرئے، ورنہ انسانیت آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی.* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

 

 

Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
14/04/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔