*محمد قمرالزماں ندوی*
*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*
*قرآن مجید* اور احادیث نبویہ میں نیک لوگوں اور اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے ساتھ رہنے کی تاکید آئی ہے، اور اس کا فائدہ اور ثمرہ بھی بتایا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے *یا ایھا اللذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین*
اے ! ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ۔
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم* نے فرمایا ۰۰ اچھے اور برے ساتھی کی مثال عطار اور بھٹی والے لوہار کی طرح ہے ۔ تم عطار کی صحبت سے بے فیض نہیں رہو گے یا تم اس سے عطر خریدو گے یا پھر تم کو خوشبو سونگھنے کو ملے گی، لوہار کی بھٹی تمہارے گھر اور کپڑے کو جلا دے گی یا پھر تم کو بھی بھٹی کی بری آواز برداشت کرنی پڑے گی ۰۰ ۔
*حافظ ابن حجر عسقلانی رح* نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ ۰۰ حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایسی مجلسوں میں انسان کو نہیں بیٹھنا چاہئے ،جہاں بیٹھنے سے دینی یا دنیاوی فائدہ نہ ہو اور صرف ایسی محفلوں اور مجلسوں میں شریک اور حاضر ہونا چاہئے جن سے دین یا دنیا کی منفعت کی امید ہو ۔
(فتح الباری ۴/ ۴۰۷)
*امام راغب اصفہانی رح* نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے ہے :
۰۰ *اللہ تعالی* کے نیک بندوں کی صحبت میں رہنا چاہیے، ان کی محفلوں میں شریک ہونا چاہئے، اس کے بے شمار فائدے ہیں، انسان تو ظاہر ہے کہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ،جانور بھی بزرگوں کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے اصحاب کہف کا کتا ان کی صحبت میں رہ کر ان کے قصہ کا جزء اور حصہ بن گیا اور قرآن کریم نے ۰۰ *اصحاب کہف* ۰۰ کے ساتھ ان کے کتے کا بھی ذکر کیا ہے ۔
*قران کریم* میں برسبیل خیر کسی کا تذکرہ یقینا بڑی عزت و شرف کی بات ہے، زمانہء ماضی بیتے ہوئے کسی واقعہ کو قرآن میں حصول عبرت کے لئے پیش کیا جاتا ہے ،نوجوان صلحاء جنھوں نے ایمان کی حفاظت کے لئے گھر بار چھوڑ دیا ،بلا شبہ تمام مسلمانوں کے لئے اس میں بڑی نصیحت اور عبرت ہے ،اسی لئے قرآن مجید میں ان افراد کا تذکرہ کیا گیا ہے مگر ساتھ میں کتا بھی تھا تو ان نیک لوگوں کے تذکرے کے ساتھ اس کتے کا بھی تذکرہ اگیا جو یقینا اس کتے کے لئے شرف کی بات ہے ،جب ایک کتا صلحاء اور اولیاء کی صحبت سے یہ مقام پاسکتا ہے تو ہم اور آپ قیاس کر لیں کہ مومنین و موحدین جو اولیاء ،اہل اللہ اور صالحین سے محبت رکھیں ان کا مقام کتنا بلند ہوگا ۔
علماء نے نوجوانوں کو خاص طور پر اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کرنے اور برے لوگوں کی صحبت اور ہم نشینی سے دور رہنے کی تاکید کی ہے ، *حضرت علی رضی اللہ عنہ* فرماتے ہیں کہ گنہگار کی صحبت میں مت رہو ،کیوں کہ وہ اپنی بد عملی اور بے حیائ کو اچھا خیال کرتا ہے ،اس کی خواہش اور چاہت ہوتی ہے کہ دوسرا ساتھی بھی اسی کی طرح برا کام کرے ۔ (فیض القدیر ۳/ ۵۰۷/ بحوالہ امثال الحدیث صفحہ ۸۴)
اس حدیث سے سماجی پہلو پر خاص طور روشنی اور ہدایت ملتی ہے کہ فرد کی تعمیر یا اس کے بگاڑ میں ماحول اور معاشرہ کا اہم اور بنیادی رول اور کردار ہوتا ہے ،اگر سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ زندگی کی اعلی قدروں اور خصوصیتوں کا حامل ہوتا ہے تو اچھے لوگ اور اچھے افراد وجود میں آتے ہیں ،جن سے قوم و ملت اور سماج و سوسائٹی کو فائدہ پہنچتا ہے اور انسانیت کی تعمیر و ترقی کی راہ پر فطری رفتار سے چلتی رہتی ہے لیکن اس کے برعکس برے ماحول اور برے سماج میں رہ کر انسان اپنی اعلی صلاحیتوں اور کارناموں سے محروم ہوجاتا ہے، گویا کہ انسانیت کی ترقی و فروغ اس کے بگڑنے اور بننے میں ماحول اور سوسائٹی و سماج زبردست رول اور کردار ادا کرتا ہے ۔
*اس* حدیث میں *نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم* نے اسی بنیادی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر آدمی کو اچھی اور نیک صحبت اختیار کرنی چاہیے، بدخلق ،جفا کار بد دین ،فاسق و فاجر دروغ گو،اور خدا بیزار انسان سے رشتہ اور تعلق نہیں لگانا چاہیے اور اہسے لوگوں دوری ہی بنا کر رکھنا چاہیے،کیونکہ غلط صحبت اور برے ہمنشیں انسان کی سیرت و کردار کو بگاڑ سکتے ہیں، ہاں ان کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور اس سلسلہ میں جو راستے اور طریقے ہوں اس کو اختیار کرنے سے نہیں چوکنا نہیں چاہیے ۔
*قرآن مجید* اس پہلو سے ہماری رہنمائی کرتے ہوئے کہتا ہے :
*ولا تطیع من اغفلنا قلبہ عن ذکرنا و اتبع ھواہ و کان امرہ فرطا* (کہف ۲۸)
کسی ایسے شخص کی پیروی نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقہ کار افراط و تفریط پر مبنی ہو ۔
علماء نے لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں *رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم* کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کوئ شخص جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہش کا بندہ بن گیا ہے آپ ایسے شخص کی فکر مت کیجئے ۔
اس کے برعکس *رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* نے اہل اللہ اور علماء و صلحاء سے محبت رکھنے اور ان کی ہم نشینی اختیار کرنے والوں کو کامیابی کی بشارت دی ہے *ھم القوم لا یشقی بھم جلوسھم* یعنی یہ ایسے نیک اور مقبولان حق ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا محروم اور شقی نہیں رہ سکتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*نیک* اور بد کی صحبت کے الگ الگ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ صحبت کے اچھے اور برے اثر سے کسی کو انکار نہیں، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ نیک لوگوں اور اچھوں کی صحبت سے انسان اچھا بنتا ہے اور اس کے اندر اچھائیاں جنم لیتی ہیں نیکیاں پروان چڑھتی اور پنپتی ہیں اور بروں کی صحبت سے انسان برا بنتا ہے اور برائیاں وجود میں آتی ہیں ۔ فارسی کا مشہور و معروف مثل ہے گھر کی خواتین اور مائیں بہنین بھی اکثر اس مثال کو پیش کرتی تھیں کہ *صحبت صالح ترا صالح کند و صحبت طالح ترا طالح کند* یعنی صالح اور نیک لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اور برے افراد کی صحبت و ہمنشینی ان کے ساتھ میل جول سے تمہارے اندرب برے اور ناپاک خیالات جنم لیں گے، تمہاری روش ،ڈگر اور چال چلن خراب ہوجائے گا ۔ شب و روز کا مشاہدہ ہے کہ اچھے لوگوں کی صحبت سے لوگ اچھے اور نیک بنتے ہیں اور بروں کی صحبت سے لوگ برے بنتے ہیں اور غلط راہ اختیار کر لیتے ہیں ۔ *ابو داود* کی حدیث ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
کہ نیک دوست کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے کی دکان کہ اور کچھ فائدہ نہ بھی ہو تو خوشبو ضرور آئے گی اور برا دوست ایسا ہے جیسے بھٹی سے آگ نہ لگے تب بھی دھوئیں سے کپڑے تو ضرور کالے ہوجائے گے ۔
*شیخ ابو الفضل جوہری* فرماتے ہیں کہ جو شخص نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے ان کی صحبت میں بیٹھتا ہے ان کی نیکی کا حصہ اس کو بھی ملتا ہے ،دیکھو اصحاب کہف کے کتے نے ان سے محبت کی اور ساتھ لگ گیا تو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس کا ذکر فرمایا (قرطبی ۱۰/۲۴۲ بحوالہ سماج کو بہتر بنائیے از مولانا تنظیم عالم قاسمی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اہل اللہ علماء اور صلحاء سے محبت و عقیدت رکھنے والوں ، اوران کی صحبت و ہمنشینی اختیار کرنے والوں کو کامیابی کی بشارت اور خوش خبری دی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
*ھم القوم لا یشقی بھم جلوسھم* یعنی یہ لوگ عند اللہ مقبول و محبوب ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا محروم اور شقی نہیں رہ سکتا ۔ *علامہ ابن حجر عسقلانی رح* نے *فتح الباری شرح بخاری* میں اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے *ان جلیسھم یندرج معھم فی جمیع ما یفضل اللہ بہ علیھم اکراما لھم* یعنی اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنے والا انہیں کے ساتھ درج ہوجاتا ہے جو اللہ تعالٰی اللہ والوں کو عطا کرتا ہے اور یہ در اصل اہل اللہ کا اکرام ہے ۔ جیسے معزز مہمانوں کے ساتھ ان کے ادنی خادموں کو بھی وہی اعلی و ارفع نعمتیں اور سہولیات دی جاتی ہیں جو معزز مہمانوں کے لئے خاص ہوتی ہیں ۔ اس کے پیش نظر اہل اللہ کے ہم نشیں اور جلیس کو بھی ان کی برکت سے محروم نہیں کرتے ۔ اگر اہل اللہ کے مکمل اوصاف و کمالات نہ بھی حاصل ہوئے تو ان کی صحبت کی برکت سے اپنے گناہوں پر افسوس اور ندامت و شرمندگی ہوگی،اور توبہ نصیب ہوگی ،نخوت و تکبر اور کبر و گھمنڈ کے بجائے تواضع و خاکساری اور ایثار و ترجیح نیز قربانی کا مزاج اور جذبہ پیدا ہوگا ۔
اس سے انکار کی گنجائش نہیں کہ اہل اللہ، بزرگان دین، علماء کرام اور صلحاء کی مجالس میں بیٹھنے اور ان کی باتوں اور اقوال و ملفوظات کو سننے سے دل میں نرمی اور گداز پیدا ہے ،دل میں عمل کا شوق اور جذبہ پیدا ہوتا ہے ،اور اصلاح نیت کی توفیق ملتی ہے ۔ پتھر کی طرح سخت دل بھی موم بن جاتا ہے اور اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس میں صلاح و تقوی اور عمل صالح کی بیج ڈالی جاسکے ۔
ہمارے فاضل دوست مولانا تنظیم عالم قاسمی صاحب نے اہل اللہ کی صحبت و ہمنشینی کے حوالے سے بہت ہی موثر باتیں رقم کی ہیں ، لکھتے ہیں :
*سیرت پر نظر رکھنے والوں کو علم ہوگا کہ صحابئہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو جو بھی مقام و مرتبہ حاصل ہوا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت کا فیض تھا،وہی بلال حبشی رضی اللہ عنہ جو پہلے غلام تھے حبشہ سے آئے تھے شکل و صورت بھی اچھی نہیں تھی ،لیکن جب انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک صحبت اختیار کی تو وہ دنیا کے امام بن گئے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی ان کو سیدنا کہہ کر مخاطب فرماتے ،ان کے علاوہ بھی جتنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب کتب حدیث میں موجود ہیں، سب کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پاک صحبت اور عشق و محبت سے ہے، یہی کیا کم ہے کہ کسی تفریق کے بغیر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فیضان صحبت اور مجالس نبوی کی بنیاد پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لئے اپنی خوشنودی کا اعلان فرما دیا* ۔
(سماج کو بہتر بنائیے صفحہ ۱۷۹ از مولانا تنظیم عالم قاسمی)
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔