*سیاست اور تاریخ کا جوڑ ہمیشہ رہا ہے، لیکن یہ نوبت پہلے کم ہی آئی ہوگی کہ سیاست کو تاریخ کیلئے استعمال کیا گیا ہو، اسے ایک ایجینڈہ اور حربہ بنا کر عوام کو عوام کے سامنے پیش کیا گیا ہو، مگر اس وقت تاریخ کو سیاست سے ایسے جوڑا جارہا ہے، جیسے وہ خود تاریخ لکھ رہے ہیں، میتھولاجی کو حقیقت بنانے کے بنانے اب گزرے زمانے کو خواب بنا کر اور اسے تاریخی لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا جارہا ہے، بھارت کی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے اور اکثر اس ضخیم کتاب میں سے صرف کسی ایک صفحہ کو نکال کر پڑھتے دلیل بناتے ہیں، جن سے ان کے مدعی پر روشنی پڑتی ہے، واقعی سمجھنے کی چیز یہ ہے کہ تاریخ کے دو پہلو ہوتے ہیں، ان میں سے ہر ایک پہلو پر غور کرنا اور اسے پڑھنا ضروری ہوتا ہے، اگر سکہ کا ایک ہی رخ دیکھا جائے تو اس کی خرابی کا پورا خدشہ ہے، عموماً بی جے پی مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کیلئے اور انہیں رسوا کرنے کیلئے مغلیہ سلطنت سے لیکر اب تک کی سرد قبروں کو اکھاڑتی ہے، اور ان کے کسی ایک اقتباس کو لیکر ہنگامہ کھرا کرتی ہے، سب سے زیادہ بڑا مسئلہ ہندوستان و پاکستان کی تقسیم کا اور ان میں موجود اقلیت کے حقوق کا ہے، سی اے اے کے سلسلہ میں امت شاہ اور وزیراعظم یہی حوالہ دیتے پائے جاتے تھے؛ کہ اس ملک کو کانگریس اور مسلمانوں نے تقسیم کیا ہے اور سی اے اے کا قانون بھی انہیں نے لاگو کیا ہے؛ بلکہ اسے گاندھی جی سے جوڑتے ہیں ___*
*اس مسئلے پر رویش کمار جیسے سینئر صحافی نے بڑی بے باکی اور غیر جانبداری کے ساتھ موازنہ کیا تھا، اپنے پرائم ٹائم پر انہوں نے بتایا تھا کہ ان دونوں کا بیان سراسر غلط ہے، تقسیم اس وقت کی ایک ضرورت بن گئی تھی، ہندوستان آزادی سے پہلے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ممالک پر منقسم تھا، اور ایسا کہا جارہا تھا کہ اگر اس ملک کو تقسیم نہ کیا گیا تو پھر تقریباً پانچ سو سے زیادہ ملک بن جاتے، اس وقت ایک انگریز ماونٹ بلکن کا یہی پلان بھی تھا، اس نے یہی مشورہ بھی دیا تھا، جسے Plan B سے جانا جاتا تھا، جبکہ Plan A یہ تھا؛ کہ ایک اقلیت (مسلم) کو الگ کردیا جائے جن کی سب سے بڑی تعداد ہے، اس کے بعد دیگر اقلیتوں کو سنبھالا جاسکتا ہے اور ان سے متحدہ انڈیا بنانے میں تعاون لیا جاسکتا ہے؛ چنانچہ مسلم لیگ اور کانگریس کی تلخی کے ساتھ اور یہاں کے ہر ایک فرد نے دل پر پتھر رکھ کر وقت کی مجبوری ولاچاری میں ملک کو تقسیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی، گاندھی جی صدمے میں تھے؛ لیکن جو ہونا تھا وہ ہوا__ پاکستان بنا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد وہاں چلی گئی؛ مگر مسئلہ یہ تھا کہ جو لوگ یہاں رہ گئے ہیں اور جو چلے گئے ہیں اگر کل کو واپس آئیں خواہ وہ ہندو ہو یا کوئی اور بھی ہو تو اس کیلئے کیا بندو بست ہوگا__؟ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کے اندر کسی بنا پر باشندے پریشان ہوں تو کیا انہیں ایک دوسرے ملک میں جانے کی اجازت دی جائے گی_؟ خصوصاً مسئلہ اقلیت کا تھا؛ کہ اگر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی تو کیا کیا جائے گا__؟*
*انہیں سوالوں اور اندیشوں کے درمیان ١٩٥٠ء میں دونوں ملکوں کے وزیراعظم نے ایک معاہدہ کیا، جسے نہرو لیاقت پیکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں ایک لفظ ڈالا گیا minorities__ اس کا مطلب یہ تھا کہ اگر اقلیت آئیں تو انہیں دونوں ملک سہارا دیں گے؛ لیکن اس کے اندر کسی دھرم و مذہب کی تعیین نہیں کی گئی تھی، اور ناہی کسی ملک کی تعیین تھی، کسی بھی بنیاد پر بھید بھاؤ کا کوئی گمان بھی نہ تھا، کیونکہ یہ ملک سیکولرازم کی بنیاد پر بنا تھا، یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کسی مذہب کا نام ڈالا جائے، اس کی تشریح خود بہت سے ماہرین اور مورخین نے کی ہے، تو وہیں شہریت کا قانون ١٩٥٥ء میں بنایا گیا ہے، ظاہر ہے ان دونوں کے اندر کوئی یکسانیت نہیں ہے، ذرا غور کیجئے! اگر نہرو جی چاہتے تو اس میں ان مذاہب کو بنیاد بنا سکتے تھے، مگر کئی ٹرم وزیراعظم رہنے کے باوجود انہوں نے ایسا کبھی نہیں کیا، ہمیں یہ معلوم ہے کہ اقلیت کہیں پر بھی خوشحال نہیں ہیں؛ تاہم موجودہ گورنمنٹ سارے مسائل سے آنکھ بند کرکے صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے ایسے اقدامات کرتی ہے اور ایسے جھوٹ بولتی ہے کہ جس سے سارا بار مسلمانوں پر ہی گر جائے، اور لوگ حکومت کی ناکامی بھول کر ایک ہی رخ پر قائم رہے.*
*بی جے پی کی پوری کوشش ہے کہ تاریخ کو جھوٹ کا ایک پلندہ بنایا جائے، چنانچہ ان کی ہمت تو یہاں تک بڑھی ہوئی ہے؛ کہ مشہور تاریخی واقعات کو خلط ملط کرنے پر تلی ہے، سرکاری اسکولوں سے نصاب بدل دیے گئے اور ان میں وہی مواد یکجا کیا گیا جو تاریخ کو ایک جھوٹ کا پہاڑ بنادے___ سبھی کو معلوم ہے کہ ہلدی گھاٹ پر اکبر نے مہارانا پرتاپ کو شکست دیدی تھی؛ لیکن اب نئی تاریخ میں اسے ایک فاتح بتلایا گیا ہے، سنکدر نے بہار قدم بھی نہیں رکھا تھا، مگر پٹنہ میں خطاب کرتے ہوئے بہار کے لوگوں کو لبھانے کیلئے اسے بہار کا شکست خوردہ بتایا گیا، یہ اور اس جیسی متعدد مثالیں ہیں، دراصل یہ سب سیاست کا حصہ ہے، عوامی ذہن کے ساتھ کھلواڑ کر کے اور ان کے اندر ہندتوا کیلئے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش ہے، وہیں ایک مدمقابل دشمن کو سامنے رکھتے ہوئے ہندوراشتر کا خواب پورا کرنا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مقابل کی موجودگی انسان کو پرجوش بناتی ہے، بالخصوص مذھبی رنگ بھی غالب ہوجائے تو انسان فطرت سے پرے ہوجاتا ہے، وہ سب کچھ کر گزرنے کو تیار رہتا ہے، بس موجودہ وقت کی یہی سیاست ہے. سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا تھا کہ سیاست کی زبان جھوٹی اور خطرناک ہوگئی ہے.*