سیاست کی ایک نئی کروٹ

???? *صدائے دل ندائے وقت*????(824) *سیاست کی ایک نئی کروٹ__* *مہاراشٹر اور دہلی کا دنگل سیاست کے باب میں ایک نیا اور نایاب اضافہ کر گیا، طاقت کے نشہ میں چور کیسے ٹوٹتے اور بکھرتے ہیں، انسان اپنے ہی جال میں کیسے پھنس جاتا ہے، ضرورت سے زیادہ ہوشیاری کیسے لے ڈوبتی ہے، کسی کو کمتر سمجھنے کی ذلیل حرکت کیسے خود کو ذلیل کرواتی ہے، خود کی بوکھلاہٹ میں کیونکر انسان خود کا ہی نقصان کر بیٹھتا ہے اور زبان درازی میں مست کیسے اپنی ہی زبان کاٹ لیتا ہے__ ان سب کی زندہ مثال مہاراشٹر اور دہلی کا سیاسی کھیل ہے، بی جے پی نے ۲۰۱۷ اور ۱۸ کے اندر جس طرح پورے ہندوستان میں زعفرانیت کا رنگ چڑھایا اور ہر طرف بھگوا رنگ عام کردیا، اس سے لگتا تھا کہ اب سیاست صرف ایک پہلو پر چلے گی، مد مقابل کی کمزوری اور لیفٹ پارٹیز کی ناکارہ قیادت نے بہت مایوس کردیا تھا، یہ محسوس ہوتا تھا کہ اب متشدد ہندتو کے طوفان کو روکنا مشکل ہے؛ لیکن ایسا کہا جاتا ہے کہ جمہوریت ہی میں نئی راہیں پیدا ہوتی ہیں، نئے آپشن ظاہر ہوتے ہیں، جس وقت اندرا گاندھی کا وجود ہی سیاست اور ہندوستان کی پہچان بن گیا تھا، اس وقت بھی ایک عجیب و غریب اتحاد دیکھنے کو ملا تھا، یہاں تک کہ حاشیہ پر پڑی پارٹیوں نے بھی مورچہ کھول دیا تھا اور وہ ہار گئی تھیں، ایک وقت تھا اٹل بہاری واجپائی نے شائننگ انڈیا کا نعرہ دے کر ایسا جادو چلایا تھا کہ لگتا تھا اب انہیں شکست دینا ناممکن یے.* *یہاں تک کہ ملک کی سب سے قدیم پارٹی کانگریس بھی گم ہوگئی تھی، ان کے پاس کوئی چہرہ نہ تھا، سونیا گاندھی ہی سب کچھ تھیں؛ بلکہ وہ بھی سیاسی اکھاڑے کی نئی راہ رو تھیں، مگر ان سب کے باوجود کانگریس کی حکومت آئی اور چناؤ میں فتح بھی پائی، تو اس وقت تک کوئی نمائندہ نہ تھا جو وزیر اعظم بنتا؛ مگر ایک نیا چہرہ منموہن سنگھ کا سامنے آیا اور پھر انہوں نے دو مرحلے سرکار کے پورے کئے۔ یہ بی جے پی کی سازش ہے کہ وہ لوگوں میں یہ خیال جما دینا چاہتی ہے کہ ان کے علاو کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے، جس طرح ایک زمانے میں اندرا گاندھی نے کیا تھا، ان کی اسی سوچ اور جنون نے انہیں سیاست میں کمزور کردیا، چانکیا کی ہر چال پر پانی پھیر جارہا ہے، اب زعفرانیت سمٹ رہی ہے، متشدد ہندتوا کے نعرے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں، بلکہ ان کا توڑ انہیں نعروں سے پیش کیا جارہا ہے، جیسے جے شری رام کے وقت جے ہنومان کا نعرہ لگانا__ رام کا بھکت کہے جانے کے بجائے ہنومان کا بیٹا کہنا وغیرہ...... بالخصوص رواں حکومت کا ہر مدعا ہی کمزور پڑتا جارہا ہے، جیسے کشمیر، رام مندر جیسے معاملات کی گرما گرمی اب ختم ہورہی ہے، انہیں ملکی ایشو بتا کر صوبوں کو ہتھیانے کیا سیاست ناکام ہورہی ہے، کہاجاتا ہے کہ تندور جب تک گرم ہو تبھی تک روٹی سینکی جاسکتی ہے، چنانچہ اب تو تندور ٹھنڈا ہوتا جارہا ہے... مگر سیاست بھی سرد پڑجائے یہ ممکن ہی نہیں ہے، جمہوریت میں سیاست کا توا ہمیشہ گرم رہتا ہے، ایک لمبے عرصے کے بعد مہاراشٹر میں ایک نئی سرکار اور ایک نئی سوچ نے جنم لیا ہے، اور وقت یہ آیا کہ این، سی پی، شیوسینا اور کانگریس ایک ہوگئے__* *اس کے باوجود کہ ان سب کی فکروں میں تصادم پایا جاتا ہے، سوفٹ ہندتو کے ساتھ شیو سینا اب آگے بڑھنا چایتی ہے، شرد پوار کو بھی احساس ہے کہ تنہا سب کچھ کرنا مشکل ہے، اور کانگریس کو سہارے کی ضرورت ہے _ تو وہیں دہلی نے متعصبانہ طوفان میں بھی تعلیمی، سماجی اور عام انسانی ضروریات کا علم. بلند رکھتے ہوئے عام آدمی پارٹی کو تیسری بار موقع دیا، اور یہ صاف بتلا دیا کہ وہی فتح پائے گا جو انسانی حقوق سے سروکار رکھتا ہو، وہ. ملک کو سی اے اے وغیرہ کے نام پر کشمکش میں مبتلا نہ کرتا ہو، اس کی اولیت ملک کی ترقی کے سوا کچھ نہ ہو___ اس کے برعکس بی جے پی نے ایک نئی سیاست شروعات کی تھی، گوا، اتراکھنڈ اور کرناٹک جیسے صوبوں کی سیاسی چالیں کسے یاد نہیں __؟ یقیناً دہلی میں بھی جوڑ توڑ نہ سہی نفرت ہی پر اقتدار کی کرسی رکھنے کی کوشش تھی، مگر محبت نے نفرت کو شکست دے دی، اور سیاست کو بھی ایک نیا رخ دے دیا، چنانچہ اب رواں حکومت اپنی ہی بنیادوں پر بکھرتی نظر آرہی ہے، تو وہیں ملک کی معیشت اور اندرونی رواداری کا فقدان جیسے سنجیدہ ایشوز پر بے چین ہے، دنیا کے سامنے خود کو جواب دہ پا کر بوکھلاہٹ کے شکار ہوگئے ہیں، ہندوستان کو ڈکٹیٹرشپ کی طرف لے جانے کی کوشش ناکام ہورہی ہے، وہ خود کٹھپتلی بنتے دکھائی دے رہے ہیں، سچ کہتے ہیں عروج پر تواضع ضروری ہے، انسان کا یا کسی بھی قوم کا خود کے نشہ میں چور ہوجانا اسے برباد کردیتا ہے۔* ✍ *محمد صابر حسین ندوی* Mshusainnadwi@gmail.com 7987972043 15/02/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔