*سوال:* شب برأت کی کیا اصلیت ہے، اس رات عبادت کا اہتمام کرنا کیسا ہے یہ بتائیں کہ اس رات کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہیے؟؟ (مولانا الطاف حسین قاسمی، مدرسہ اشرف العلوم ممبئی)
*بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*
*الجواب بعون اللہ الوہاب*
پندرہ شعبان کی جو رات ہے اسی کو "شب برأت" کہا جاتا ہے، شب برأت کا مطلب یہ ہے کہ اس رات میں اللہ کے بندوں کو جہنم سے براءت اور خلاصی حاصل ہوتی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: شعبان جب آدھا ہو جاتا ہے تو اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی ساری مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ پرور کے (١) اس لئے اس رات میں بندے کو چاہئے کہ اپنے رب کی جانب متوجہ رہے اور اس کی خاص رحمت و مغفرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے؛ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: شعبان کی پندرہویں رات آئے تو اللہ کے حضور نوافل پڑھا کرو (٢) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: چار راتوں میں اللہ تعالیٰ خیر کو خوب بڑھا دیتے ہیں؛ منجملہ ان میں شعبان کی پندرہویں رات بھی ہے (٣) اس لئے اس رات عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے.
لیکن اس اہتمام کا طریقہ یہ ہے کہ تنہا تنہا یہ رات گزاری جائے نہ کہ جمگھٹا بنا کر اسے گزارا جائے، مشہور فقیہ علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ نے فتاویٰ شامی میں اسی طریقے پر اس رات کو گزارنے کی بات نقل کی ہے لیکن ہمارے معاشرے میں ہوتا یہ ہے کہ لوگ جوق در جوق مسجدوں میں جاتے ہیں اور دنیا کی باتیں کرتے ہیں اور کچھ عبادت باقی ادھر ادھر کی باتوں میں ساری رات کاٹ دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔
اسی طرح اس رات قبرستان جانے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے اور وہاں بھی چراغاں اور نہ جانے کیا کیا کیا ہوتا ہے، اس سلسلے میں معلوم ہونا چاہیے کہ پوری حیات طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ایک بار پندرہ شعبان کی رات قبرستان جانا ثابت ہے اور وہ بھی بالکل چپکے سے؛ حتی کہ امی جان حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی آپ نے نہ بتایا اور نہ انہیں جگایا(٤) اس لئے اگر زندگی میں ایک دو بار شب برأت میں قبرستان چلا جائے تو بہتر ہے؛ مگر اسے ہر سال کا معمول بنا لینا اور شب برأت کے لوازمات میں شمار کرنا یقیناً غلط ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔
اس رات عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں کو سجاتے قمقمے لگاتے اور پٹاخے پھوڑتے ہیں؛ بلکہ شہروں میں تو لوگوں کے مکانوں میں لگے باہری بلب اور ٹیوب لائٹ وغیرہ کو بھی پھوڑ دیتے ہیں جس کی شریعت میں قطعاً گنجائش نہیں ہے، یہ ناکہ صرف گناہ کبیرہ ہے بلکہ ظلم اور بیجا اسراف بھی ہے۔ ایسی حرکتوں سے ثواب تو درکنار انسان گناہ کے انبار اپنے سر لادتا ہے۔
اس رات کرنے کے کاموں میں نفل نمازیں، تلاوت قرآن کریم، توبہ و استغفار، دعا و مناجات ہیں، ان کاموں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، اپنے اور بیگانے ہر ایک کے لئے خیر کو طلب کرنا چاہیے اور جہاں تک ہوسکے رو دھو کر اپنے مالک کو منا لینا چاہیے۔