*شرعی مسائل (اورخاص طور پر جدید مسائل) کے حل کے لیے دو چیزیں انتہائی ضروری اور لازمی ہیں۔ ایک رسوخ فی العلم( یعنی علم کے اندر گہرائی اورگیرائی ،تبحر، اور اخذ و استنباط کی بے پناہ صلاحیت) ۔ دوسری چیز ورع و تقوی (یعنی حزم و احتیاط اور خوف خدا۔) اگر ان دونوں میں سے ایک چیز ہے اور دوسری چیز نہیں ہے، تو وہ شخص امت کی صحیح رہنمائی اور مسائل کا صحیح حل کبھی نہیں پیش کرسکتا*۔
*آج کل ڈیبیٹ اور ٹیلی ویزن مذاکرے میں جو لوگ مسلم نمایندہ بن کر حصہ لے رہے ہیں، زیادہ تر ان دونوں اوصاف اور صلاحیتوں سے خالی ہیں۔ جس کی وجہ امت مسلمہ کی مزید رسوائی کی وجہ بن رہے ہیں اور اینکرز کے سامنے خود بھی ذلیل و رسواہوتے ہیں۔ البتہ کچھ اکرامیہ اور ہدیہ ضرور پالیتے ہیں*۔
*زیادہ تر لوگ نام و نمود، شہرت اور ناموری کے لیے ٹی وی مذاکرات کا حصہ بنتے ہیں۔ یا حکومت وقت کے احسان لینے کی وجہ سے دباؤ میں رہتے ہیں (آجاتے ہیں)اور وہ وہی بولتے ہیں جو حکومت وقت بولوانا چاہتی ہے*۔
*میرا ایک ذاتی تجربہ بھی ہے کہ جو لوگ بالکل پسماندہ اور انتہائی غریب فیملی سے تعلق رکھتے ہیں، اکثر یہ دیکھا گیا ہے، اگر ان میں کوئی جنیس اور بہت باصلاحیت ہوتا ہے تو وہ بھی شہرت اور نام و نمود کے لیے اور معیار زندگی کے بلند کرنے کے شوق میں بہت دفعہ دشمن کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ان کے اندر صلاحیت اور معلومات کی کمی نہیں ہوتی مذاہب پر بھی زبردست مطالعہ ہوتا ہے اور اس پر ان کو دعوی اور فخر بھی ہوتا ہے وہ قیمتی محاضرات برابر دیتے رہتے ہیں، مرکزی دار العلوم میں ہفتہ میں لیکچرز بھی دیتے ہیں ۔ لیکن خوف خدا کی کمی ہوتی ہے صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہوتی ہے کہ عملی زندگی میں بہت سی چیزوں کے بھی پابند نہیں ہوتے۔ احساس کمتری کی وجہ سے فکر رہتی ہے کہ فلاں کے مقابل کیسے ہو جاؤں _*
*میری یہ باتیں لوگوں کو تلخ ضرور لگ رہی ہوں گی، لیکن سچائی یہی ہے،اس کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ میں تو کچھ بھی نہیں ہوں نہ کسی صف میں شمار ہے لیکن اللہ تعالی سے ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ بار الہا!*
*قبل اس کے کہ وہ وقت آئے کہ مجھے کفر و شرک کی تائید کرنی پڑے اپنے پاس بلا لینا اور اس رزق سے پناہ دے دینا ، جس سے پرواز ✈ میں کوتاہی آجائے، اس رزق سے تو ہزار درجہ موت اچھی ہے*۔
*علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا* :
*اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی*
*جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی*