صحت و بیماری اسلام کی نظر میں

*محمد قمرالزماں ندوی*

*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ*

*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم* نے بیماری کو قرب الہی، عطا و بخشش اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و شفقت کا ذریعہ بتایا ہے۔

خدا تعالیٰ نے امت پر یہ عظیم احسان کیا کہ مسلمانوں کو اپنے اعمال کی بدولت بیماری کے نتیجے میں، اور اس کے علاوہ جو دکھ و غم اور پریشانی پہنچتی ہے اس پر بھی اپنے بندوں پر فضل و انعام اور رحمت و شفقت کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ ہر مسلمان کی آرزو، خواہش، چاہت و تمنا اور اس کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ وہ کسی حال میں بھی رہے بس گناہوں سے پاک رہے، اس کو رضاءیے الہی اور قرب خدا وندی حاصل ہو، اس کا رب اس سے راضی اور خوش رہے۔ بیماری میں مبتلا نہ ہونا کوئی فخر و خوشی کی بات نہیں ہے، بلکہ ایک طرح کی بد نصیبی ہے، روزہ مرہ کی چھوٹی چھوٹی پریشانی اور بیماری بھی اس بات کی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کے نامہ اعمال پر گناہ دیکھنا پسند نہیں کرتا، یعنی بیماری بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی علامت ہے اور گناہوں کا کفارہ بھی۔ لیکن افسوس کہ بیماری کے بارے میں اسلام ہمیں اس بارے میں جو تصور، تعلیم و گایءڈ لاءین دیتا ہے، اور اس کے بارے میں جو رہنمائی کرتا ہے، اس سے ہم کافی دور ہیں۔ اسلام مذہب اس بارے میں جو رہنمائی کرتا ہے، اس کا خلاصہ اور لب لباب پیش خدمت ہے۔

*صحت*، بیماری، شفاء، زندگی اور موت وغیرہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، کسی انسان خواہ وہ نبی ولی اور اللہ تعالی کا کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو اس کو بھی اس میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں سے کہلوایا کہ تم اپنی زبان سے یہ کہو،اقرار کرو اور یہ عقیدہ رکھو کہ *و اذا مرضت فھو یشفین* اور یہ کہ جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ ذات شفا دیتی ہے ۔

دوائی اور جڑی بوٹیوں میں شفا کی طاقت بخشنے والا اور اس کے اندر بیماری کے جراثیم سے مدافعت کی قوت بخشنے والا بھی اللہ ہے وہی ذات شافی ہے ۔

اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر چونکہ انتہائی مہربان ہے اس لئے اللہ تعالی نے کسی مرض کو لا علاج نہیں رکھا بلکہ ہر بیماری کا علاج بھی اپنی حکمت سے پیدا کردیا ۔ اس لئے بیماری کا علاج خلاف شریعت نہیں ہے بلکہ عین مطابق شریعت ہے ۔ علاج اگر اس اعتماد کے ساتھ ہو کہ شفاء دینے والی ذات صرف اللہ تعالٰی کی ہے ،اور دوا بطور سبب کے ہے ،تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود اپنا علاج فرمایا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے گردن کے نیچے کمر کے بالائی حصہ پر مسموم (زہریلی) بکری کا گوشت کھانے کی بنا پر پچھنے لگوائے ۔ اور آپ نے لوگوں کو علاج پر ابھارا ہے ۔

حضرت اسامہ بن شریک سے حضرت زیاد بن علاقہ روایت کرتے ہیں کے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا، چند بدو ( دیہاتی) حاضر ہوئے ،اور انہوں نے سوال کیا، اے اللہ کے رسول! اگر ہم علاج نہ کریں تو کیا ہم پر کچھ گناہ ہوگا ؟آپ نے فرمایا ہاں! اللہ کے بندو ! تم علاج کیا کرو ،اللہ بزرگ و برتر ہے،ایک چیز کے علاوہ کوئ بیماری نہیں پیدا کی،جس کی شفا نہ اتاری ہو،صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے،آپ نے فرمایا : الھرم یعنی وہ بڑھاپا ہے ۔ (ترمذی باب فی الطب)

آپ نے نہ صرف یہ کہ لوگوں کو علاج پر ابھارا، بلکہ دوا بھی تجویز فرمائ ۔

ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آئے اور کہا میرے بھائ کو اسہال لگے ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا کہ اس کو شہد پلاو،اس نے شہد پلایا اور پھر آکر اس نے کہا کہ میں نے اس کو شہد پلایا ،لیکن اس کی تکلیف بڑھ گئ ہے، تین مرتبہ آپ نے فرمایا شہد پلاو ،چوتھی مرتبہ جب آپ نے یہی فرمایا تو اس نے کہا میں نے اس کو شہد پلایا ہے، لیکن اس کی تکلیف میں اضافہ ہی ہوا ہے، آپ نے فرمایا : اللہ تعالٰی کا قول سچا ہے، اور تمہارے بھائ کے پیٹ نے خطا کی ہے ،پھر آپ نے شہد پلایا تو تکلیف دور ہوگئ ۔ ( بخاری شریف ابواب الطب)

ان احادیث کی روشنی میں علامہ ابن قیم رح فرماتے ہیں : ۰۰صحیح حدیثوں میں علاج کا حکم دینا، یہ توکل کے منافی نہیں ہے، جیسے کہ بھوک اور پیاس، سردی اور گرمی کو اس کی اپوزٹ چیزوں سے دور کرنا توکل کے منافی نہیں ہے ۔ بلکہ توحید کی حقیقت اسباب کو اختیار کرنے ہی سے مکمل ہوتی ہے ،جن اسباب کو اللہ تعالی نے عقلا و شرعا مسببات کے تقاضے کے طور پر متعین فرما دیا ہے ۔ (زاد المعاد ۴/۱۵)

بیماری اور علاج و معالجہ کے سلسلہ میں شریعت کیا حکم دیتی ہے اور اس بارے میں کیا رہنمائ کرتی ہے اس سلسلہ کچھ ضروری باتیں اختصار کے ساتھ ہم قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : *لکل داء دواء* (مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۰۴)

ہر بیماری کا علاج ہے ۔

اسی حدیث میں آگے ہے : ۰۰ جب تک بیماری کے علاج (دوا دارو) تک رسائ ہوجاتی ہے تو انسان اللہ تعالی کے حکم سے ٹھیک ہوجاتا ہے ۰۰ ۔

اللہ تعالٰی نے دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر انسان کو کوئ نہ کوئ بیماری لاحق ہوتی رہتی ہے، شاید ہی کوئ شخص ہو جو بالکلیہ بیماری سے محفوظ و مامون ہو ۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیماری اگر چہ اللہ تعالٰی کے حکم سے آتی ہے جس طرح دوسرے تمام کام بھی اللہ تعالٰی کے حکم ،مرضی اور مشئیت سے ہوتے ہیں ۔ تاہم اس کا علاج اور دوا و معالجہ کرانا بھی جائز ہے ۔

علاج و معالجہ کراتے وقت بھی ایک مومن کا یہ تصور اور عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تعالی ہی کے حکم سے شفا نصیب ہوگی ۔ دوا کے اندر شفا کی قوت اور تاثیر پیدا کرنا بھی اللہ تعالٰی کا کام ہے نہ کہ کسی دوائ کا ۔ ہاں اسباب ظاہری کے تحت علاج کیا جائے ۔ اللہ تعالٰی نے جس طرح بیماری نازل فرمائی ہے، اسی طرح دوا بھی اتاری ہے ۔ جب صحیح دوا مل جاتی ہے تو انسان اللہ تعالی کے حکم سے شفا یاب ہوجاتا ہے ۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا انسان بیماری سے دوچار ہوتا رہتا ہے ۔

بیماری میں انسان کو جزع و فزع اور اللہ تعالٰی سے شکوہ نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ بہت سے لوگ بیماری میں شکوہ شکایت اور نامناسب کلمات زبان سے ادا کرنے لگتے ہیں ۔ بلکہ حکم شریعت یہ ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔ بیماری میں ایک گونہ فائدہ ہے کہ انسان کے گناہ معاف ہوتے ہیں، لیکن ناشکری شکوہ و شکایت اور واویلا کرنے سے انسان اجر و ثواب کے بجائے گناہ کا مستحق ٹھہرتا ہے، اسی لئے بیماری میں بھی صبر و شکر تحمل و برداشت اور رضا بالقدر کا مظاہرہ ضروری ہے ۔

بیماری اور علاج و معالجہ کے سلسلہ میں فقہاء کرام نے سارے احکام و مسائل تفصیل سے بیان کر دئیے ہیں اور کوئ گوشہ تشنہ نہیں رکھا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ان احکام و ہدایات اور مسائل کو پڑھیں اور ساری طاقت صرف دوا اور علاج ہی میں نہ صرف کردیں بلکہ بیماری کی حالت میں اللہ تعالی سے تعلق مضبوط کریں ان کے سامنے روئیں شفا کی بھیک مانگیں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ اور خیرات کریں کیونکہ اس سے بیماری ختم ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: *تداوا مرضاکم بالصدقة* اپنے مریضوں کا علاج صدقے سے کرو ۔

کتنے ایسے واقعتات ہیں انسان علاج کراتے کراتے تھک ہار گیا اور زندگی سے ایک طرح سے ناامید ہوگیا لیکن کسی نے اشارہ کیا یا حدیث کی کتاب میں پڑھا کہ اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ سے کیا کرو ۔ پھر اس نے اس طریقئہ علاج کو صدق دل سے اختیار کیا غریبوں یتیموں اور مسکینوں و بیواؤں کو تلاش کر کر کے اس کی مدد کی اور ان کے سر پر ہاتھ رکھا اور صدقہ و خیرات کیا تو اللہ تعالی نے ان کو موذی اور مہلک بیماریوں سے شفا یاب کر دیا ۔

اللہ تعالٰی ہم سب کو بھی ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین

*نوٹ اس پیغام کو زیادہ سے زیادہ دوسروں تک پوسٹ کیجئے*

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔