طلبائے جامعہ ملیہ کے ساتھ حیوانیت

???? صدائے دل ندائے وقت????(819)
طلبائے جامعہ ملیہ کے ساتھ حیوانیت __!! *جو ملک اپنی نوجوان نسل کی عزت نہ کرے، اسے صحیح راہ پر لگانے کی فکر نہ کرے، ان کیلئے تعلیمی وفکری میدان فراہم نہ کرے، بولنے، لکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی آزادی نہ دے، اس ملک کو جمہوری ملک کہنا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ اور کیسے ممکن ہے کہ وہاں تعلیمی و تہذیبی اور تکنیکی ترقی ہوجائے، نئی راہیں کھل جائیں، فضا وسیع تر ہوجائے، اور پوری دنیا کیلئے لائق تقلید نمونہ بن جائے، آج یورپ اور مغرب ترقی کی فضا میں شہنائی بجا رہے ہیں، اس لئے نہیں کہ انہوں نے ہتھیار اور اخلاقی اقدار سے دنیا کی جھولی بھردی ہے؛ بلکہ اس لئے کہ انہوں نے ایک ایسی نسل تیار کی ہے کہ وہ ایجادات پر توجہ دیتے ہیں، تعلیمی میدان میں ہر طرح کی آزادی فراہم کی جاتی ہے، مستقبل کو محفوظ کیا جاتا ہے؛ لیکن ہمارے ملک بھارت تعلیم و تعلم کیلئے جہنم بنا ہوا ہے، اور پھر یہاں کی نوجوان نسل کیلئے چیلینج بن چکا ہے، حتی کہ انہیں اظہار رائے کا بھی حق نہیں دیا جاتا، آج (١٠/٠٢/٢٠٠) ہی کا تازہ ترین واقعہ ہے کہ جامعہ ملیہ کے طلباء پارلیمنٹ تک مارچ کرنا چاہتے تھے، سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف اپنی ناراضی درج کروانا چاہتے تھے، انہوں نے قانونی کاروائی بھی کروالی تھی، اجازت نامہ بھی لے لیا تھا؛ لیکن اس کے باوجود پولس نے انہیں گھیر لیا، ایک احاطہ بنا لیا، انہیں اکساتے چلے گئے، انہیں دھکا دیتے چلے گئے، ان کے سامنے اس طرح آگئے جیسے وے کوئی مدمقابل جنگجو ہیں، ملک کو توڑنے والے اور صحیح معنوں میں ٹکڑے ٹکڑے گینگ ہیں.* *پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ نظاہ بھی نظر آگیا؛ جسے دیکھ کر آسمان شرماجایے، بھارت کی تاریخ ان پر تھوک دے، عالمی برادری ان کا مزاق اڑائے، اور ہر ایک نرم دل رکھنے والا، اپنے آپ کو انسان کہنے والا افسوس کرنے لگے، پولس کی لاٹھیاں ہوا میں لہرا رہی تھی، وہ خود لوہے کی خو اور ہیلمیٹ میں اپنے آپ کو غرق کئے ہوئے تھے، لیکن تیز طرار اور زوردار جھٹکوں کے ساتھ ان کی لاٹھیاں نہتھے طلباء و طالبات پر برس رہی تھیں، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ کوئی جمہوریت نہیں اور یہ بچے یہاں کی عوام نہیں؛ بلکہ کوئی غدار وطن ہیں، دیش دورہ ہیں، انہوں نے ملک میں کوئی علم بغاوت بلند کیا ہو، ان کے سر پھوڑ دیے، جسم کو لہو لہان کردیا گیا، پیر توڑ دئے گئے، ہڈیاں چٹکا دی گئیں، جسم کے عضو عضو سے خون رس رہا ہے، جن ہاتھوں میں کتاب کے صفحات ہوتے، اور جن سروں پر ملک کا تاج ہوتا، جن کاندھوں پر دیس کی ترقی کا بوجھ ہوتا انہیں خون آلود کردیا گیا، وہ زمین پر گرنے لگے، لڑھکنے لگے، سڑک پر لوٹ پوٹ ہونے لگے، بے سہارا و بے بس ہوکر چیخ و پکار کرنے لگے، اپنی بے کسی پر آنسوؤں کی جھاڑیاں لگنے لگیں، مگر پھر بھی وہ باطل کے سامنے سینہ سپر ہوگیے، بچیوں کا حوصلہ دیکھتے ہی بنتا تھا، صنف نازک نے ہمالیہ سے بڑھ کر استقامت کا ثبوت دیا، انہوں نے نظریں نہ جھکائیں، آواز پست نہ کی، جذبات نے انہیں توڑا، طاقت انہیں نہ دبا سکی، ڈنڈے بارش سے بھی زیادہ تیز، موسلادھار اور لگاتار گرتے؛ لیکن حوصلہ ان کے سامنے مضبوط بند باندھ دیتا، ان کے پیروں کو زمین میں گاڑ دیتا، ایسا لگتا تھا کہ وہ پتھر بن گئی ہیں اور یہ ضد پکڑ لی ہے کہ وردی کے دہشتگردوں کو دھول چٹادیں.* *دہلی میں پارلیمنٹ کی طرف جانے والی سڑک جنگ آزادی کے مناظر میں تبدیل ہوگئی تھی، آنکھوں کے سامنے وہی قربانی وہی جذبہ اور وہی سرفرازی و سرفروشی دکھائی دیتی تھی، پولس نے جوں جوں بربرتا کی ___ ہمت مزید بڑھتی گئی، لیکن یہ بیان کرتے ہوئے قلق ہوتا ہے، دل مرجھا جاتا ہے کہ مظلوموں پر یہ نوبت یہ آن گئی تھی کہ ان ظالموں نے صنف نازک کو خاص طور سے ٹارگٹ کیا، ان اللہ کی بندیوں کو نشانہ پر لیا، خبر یہاں تک آرہی ہے کہ ان کے پرائیویٹ پارٹس پر بھی چوٹیں آئی ہیں، اللہ __ اللہ __ یہ حیوانیت!! یہ جمہوریت!! آخر کس امید سے کہتے ہیں کہ ملک میں ترقی ہوجائے گی؟ جب جدید نسل ہی راہ نہ پائے، باغ کا خوبصورت ترین پھول ہی مجروح ہوجائے، تو گلستان کی کیا اوقات رہ جاتی ہے، باغباں ہمیشہ اپنے پھولوں کو سنجوئے رکھتا ہے، ان کی نگہداشت کرتا ہے، ان کو پیار ومحبت سے پروان چڑھاتا ہے، تبھی ایک وقت آتا ہے کہ جب پورا باغ اس پھول کی مہک سے معطر ہو اٹھتا ہے، اس کی رعنائی سے جگمگا جاتا ہے، پرندے اس شاخ پر بیٹھ کر چہچہاتے ہیں، گنگناتے ہیں، گاتے ہیں اور محبت کا نغمہ سناتے ہیں، جو کوئی اس باغ کی زیارت کرے اس کی قوت شامہ اور قوت سماعت عجب لطف سے محظوظ ہوتی ہے.* *ہمارا ملک خود اپنے پھولوں کو پیروں تلے کچل رہا ہے، اپنے مستقبل کو قعر مذلت کی طرف دھکیل رہا ہے، تعلیمی بجٹ ہر بار گھٹا دیا جاتا ہے، نئے پروجکٹ میں کالج اور یونیورسٹیز کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے؛ بلکہ جن یونیورسٹیز کو فنڈ دیا جاتا ہے اس میں بھی کٹوتی کردی جاتی ہے، بس ترقی ہے تو صرف سیاست کے گلیاروں میں ہے، ہر سیاست دان کی تنخواہ لاکھوں سے تجاوز کر رہی ہے، وہ بھی اس لئے کہ ملک کو نیست و نابود کریں یا پھر صرف ایک ہی رنگ میں رنگ جائیں__؟ سبھی جانتے ہیں کہ دہلی کی پولس کس کے اشارے پر کام کرتی ہے، اس کا تعلق بلاواسطہ وزیر داخلہ سے ہے، اس کے باوجود اگر ہماری آنکھیں نہیں کھلتیں اور ہم مظلوموں کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے، تو خدا کی قسم تاریخ میں سب سے بڑے مجرم ہم ہی ہوں گے، مدارس و خانقاہ کے لوگ بھی سن لیں ___ اگر آج یونیورسٹیز، کالجز اور ان کے طلباء زد میں ہیں، تو تم بھی کل کو نشانہ پر آؤگے اور یقیناً آؤگے__ کیونکہ اس حکومت کا منشا صاف ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تک مذہبی عصبیت کی آگ میں جھلستے رہیں گے، آپسی اختلافات میں ایک دوسرے کی حقارت کرتے رہے ہیں گے، یا حکومت کا آلہ کار بن کر اسلام کے نام. پر دھبہ بنتے رہے ہیں گے، یا یہ کہ گوشہ تنہائی سے نجات ملتی ہے اور وقتی راحت کو دیکھتے ہوئے شتر مرغ کی چال چل دیتے ہیں، یاد رکھیں اگر آج نہیں تو کبھی نہیں، ابھی نہیں تو کبھی نہیں __* ✍ *محمد صابر حسین ندوی*

Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
10/02/2020

تبصرہ کریں

تبصرے

ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔