???? *صدائے دل ندائے وقت*????(1026)
*ظلم کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے -*
*ظلم آخر ظلم ہے، جب بھی ہو جہاں بھی ہو زمانہ چور چور ہوجاتا ہے، معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے، اپنائیت کا دھاگہ ٹوٹ جاتا ہے، کل پرزے ہل جاتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ ظلم کا خمیازہ کسی بڑے عذاب کی صورت میں ہی ظاہر ہو، کوئی خطرناک و مہلک انجام ہی بتائے کہ ہم ظلم کا انجام بھگت رہے ہیں؛ بلکہ انسان کا شب و روز ظلم کا نتیجہ پاتا ہے، ویسے غور کیجئے! ہر انسان اپنے آپ میں ظالم ہے، مصائب و تکالیف کا ذمہ دار ہے، قرآن مجید نے خود اس حقیقت کو بیان کیا ہے؛ کہ انسان اپنے ہاتھوں سے ظلم کو دعوت دیتا ہے، اور انجام کار اس کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ انسانی ہاتھوں کی یہ کمائی صرف انفرادیت تک رہ جائے؛ بلکہ اس کا اثر متعدی ہوتا ہے، پورا معاشرہ اور سوسائٹی اس کی چپیٹ میں آتا ہے، اگر آپ ظلم نہیں کرتے تب بھی ظلم کرنے والوں کو نہ روک کر بھی ظالم کی مدد کرتے ہیں، اس کے جرم میں برابر کی حصہ داری پاتے ہیں، اسلام نے اسی لئے امر بالمعروف کے ساتھ نھی عن المنكر کا حکم دیا ہے، اگر صرف اچھائیوں کی تلقین سے ہی کام چل جاتا تو نھی پر نکیر کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور اسے اسلام کا اہم جزو قرار نہ دیا جاتا، اس معنی میں دیکھا جائے ہر شخص اپنے اپنے دائرہ میں ظالم ہے، اور اسی ظلم کا پرتو اس کی زندگی پر جھلکتا ہے، کبھی عمومی طور پر معاشرہ اس برائی میں ڈوبتا ہے تو کبھی انفرادی طور پر بھی سخت مصائب کا سامنا رہتا ہے، آج پوری انسانی برادری جنگ کے دہانے پر ہے، دنیا کے ہر کونہ میں کوئی نہ کوئی شعلہ پھٹ رہا ہے، جس سے انسانیت خاک ہورہی ہے، بلکہ بحر و بر میں فساد مچ چکا ہے، سمندروں کی طغیانی نے سمندری نظام اور نقل و حرکت پر گہرا اثر ڈالا ہوا ہے، تو وہیں جنگلات میں آگ زنی ہے، پہاڑوں پر شعلے ابھر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کے ساتھ یہ دنیا انسان کیلئے آزمائش کا دنگل بن گئی ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، یہاں پر ظلم اور اس کے خمیازہ پر سید محمد الحسنی رحمہ اللہ کی بہترین تحریر قابل مطالعہ ہے، آپ رقمطراز ہیں:*
*"وما ظلمنھم ولکن کانوا أنفسھم یظلمون_ (نحل: ١١٨)" اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا؛ لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں" آیت بالا میں انسانی زندگی کی ایک بڑی حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان خود کوئی غلطی کرتا ہے اور اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، جب تک اس کا کڑوا، کسیلا پھل اس کے سامنے نہیں آتا، اور اس کو ذلت، ناکامی و نامرادی، ذہنی و دماغی انتشار اور قلب و روح کی بے چینی کا سامنا ہوتا ہے یا مختلف حوادث پیش آتے ہیں، تو وہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے اس پر ظلم کیا ہے اور اس کو مصیبت میں ڈالا ہے؛ حالانکہ یہ مصیبت خود اس کی لائی ہوئی ہوتی ہے، قرآن میں ایک دوسرے موقع پر آیا ہے کہ __ وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم و یعفوا عن کثیر_(شوری:٣٠)_" تم کو جو کچھ تکلیف پیش آئی ہے، وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی لائی ہوئی ہے، اور اللہ تعالیٰ تو بہت کچھ معاف کر دیتا ہے" یعنی تمہاری بداعمالیوں کا پورا نتیجہ یہاں ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہوسکتا ہے، تنبیہ کے طور پر کچھ تلخ نتائج تمہارے سامنے آتے ہیں، باقی بڑا حصہ معاف کردیا جاتا ہے، اس آیت پر جتنا غور کیا جائے گا، آدمی پر اپنی حقیقت اس پر منکشف ہوتی جائے گی، اور خدا کی رحمت و ستاری، رزاقی اور عفو و درگزر کا اس کو قدم قدم پر مشاہدہ ہوگا. اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں سے منع فرمایا ہے، اگر ان سے کوئی شخص پرہیز نہیں کرتا، پھر اس کی تکلیفوں اور نتائج بد سے پریشان ہوتا ہے، اور دولت، شہرت اور اقتدار و حکومت کے باوجود اس کو ناکامیوں سے واسطہ پڑتا ہے، تو اس کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ یہ سب اس ظلم کا خمیازہ ہے، جو وہ خود اپنے اوپر کر رہا ہے، اگرچہ فی الحال غفلت یا لذت کی وجہ سے وہ اس کو ظلم نہیں معلوم ہوتا؛ لیکن حلال و حرام اور حدود شرعیہ کی جو میزان اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ میں دی ہے، اس کی روشنی میں وہ نہ صرف اپنے اعمال کو بلکہ اپنے افکار و خیالات اور جذبات و تصورات کو بھی اچھی طرح ناپ تول سکتا ہے_ بل الانسان علی نفسہ بصیرۃ، ولو ألقی معاذیرۃ (قیامۃ:١٤_١٥) انسان اپنے نفس کو خوب سمجھتا ہے، خواہ ہزار عذر کرے" (قرآن آپ سے مخاطب ہے: ٩٥_٩٦)*
✍ *محمد صابر حسین ندوی*
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043
04/09/2020
ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔