عشرہ ذی الحجہ کے شارع کا حکیمانہ اعلان تمام بندوں کیلئے ہے حج جیسا انعام
از:- ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، ارریاوی
موبائل: 8801589585
اسلام ایک فطری مذہب ہے، جس کے نظم و نسق میں تمام بندوں کیلئے بڑی تدبیر وحکمت پوشیدہ ہے اور انکی کامیابی کے اسرار و رموز پنہاں ہیں، خواہ وہ حج و قربانی کا اسلامی اور خصوصی نظام ہو یا عشرہ ذی الحجہ کی عظمت و معنویت کا عمومی فرمان ہو، سارے نظام و فرمان میں مکمل عدل و انصاف کی تعلیم و تربیت ہے، اسکے ہر حکم وعمل سے توازن و اعتدال کا دلکش منظر جھلکتا ہے، اس کے ہر پیمانے میں مساوات کا جاذب نظر پہلو عیاں ہوتا ہے، حکام ہو کہ رؤساء، امراء ہو کہ فقراء دونوں کے لیے انصاف کا پیمانہ اور قانون برابر ہے اور سب کو اس کا مکلف بنا دیا گیا ہے، شکل و صورت اور عہدہ و منصب کے اعتبار سے مذہب اسلام میں کوئی فیصلہ پوشیدہ نہیں رکھا گیا، اسمیں امیر و غریب، حاکم و محکوم، گورے وکالے، عربی و عجمی، حکمراں و بادشاہ اور کمزور وطاقتور کے فرق کو مٹا کر یکساں قوانین الہیہ اور فرامین نبویہ وضع کردیے گئے ہیں، سب کیساتھ برابری کے احکامات و ارشادات ہیں، کوئی کسی کا حق جبرا غصب نہیں کرسکتا! کوئی کسی پر بے جا ظلم و زیادتی اور شبخوں نہیں مار سکتا! کوئی کسی کا ناحق خون نہیں بہا سکتا! اسی طرح یہ دین فطرت نفرت و عداوت، بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کے فرق کو انکے پیروکاروں کے دلوں سے کھرچ کھرچ کر مٹاتا ہے اور شارح شریعت نے جاہلیت کے تمام برے اخلاق و اطوار کو اپنے قدموں تلے روند دیا ہے اور دنیائے انسانیت کے لیے تقویٰ و پرہیزگاری کو اصلی معیار تفوّق اور سند امتیاز قرار دیاہے اور قیامت تک کے لوگوں کے لیے یہ حکیمانہ سبق ارشاد فرما دیا ہے کہ ''لا فرق بین عربی ولا أعجمی ولاأبیض ولا أسود إلابالتقوی'' ترجمہ: عربی اور عجمی، کالے اور گورے کے درمیان تقوی اور پرہیز گاری کے سوا کوئی فرق نہیں قائم رکھا گیا اور قرآن کریم نے اس بات پر مہر ثبت کردی کہ ''ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم'' ترجمہ: اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے معزز وہ شخص ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو۔
غرض کہ اللہ اور اس کے رسول پر کامل ایمان و اعتقاد، ان کی اطاعت و فرمانبرداری کو دنیوی و اخروی کامیابی و کامرانی کا زینہ قرار دیا ہے، قرآن و حدیث کے احکامات واوامر اور ارشادات و فرمودات کی پابندی اور مواظبت کو اور منکرات و نواہی سے مکمل اجتناب کو انسانیت کی شرافت وکرامت کا نمونہ بنایا ہے اور نیکی و خوبی اور رشد وہدایت کی راہ کو انسانی معراج بتایا ہے اور رہتی دنیا تک کے لوگوں کی فلاح و کامیابی اور بلندی و برتری کو ان کے نیک اعمال و اخلاق میں منحصر کر دیا ہے۔ اور مخصوص ایام واوقات میں اللہ کی عبادت و ریاضت کے ذریعے انکی رحمت و عنایت اور بخشش ومغفرت کے حصول کا طریقہ بھی بتا دیا ہے تاکہ کسی کو اس کے توازن اعتدال و انصاف اور پیمانہ ئمساوات میں کوئی اشکال نہ پیدا ہو سکے اور امیر کو غریب پر، حاکم کو رعایا پر، گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر، حاجی کو غیر حاجی پر فوقیت اور فرق مراتب میں کسی قسم کا سوئے ظن نہ پیدا ہوسکے اور کوئی احساس کمتری کے شکار میں مبتلا نہ ہو سکے۔ اسی لیے اسلام نے نماز پنجگانہ کی جماعت کی صف بندی میں بھی اس بات کی تعلیم دی ہے اور بادشاہ و گدا کو ایک ہی صف میں ٹھہرا کر مساوات انسانیت کا جوعظیم پیغام دیا ہے وہ قابل تقلید اور اتباع ہے اور کسی کو بھی مذہبی اور نسلی بھید بھاؤ سے کام لینے کا اختیار نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ان جاہلی اوہام و خیالات کو انسانی ذہن و دماغ میں فروغ پانے کو بھی ممنوع و محظور قرار دیا ہے۔ قربان جائیے! اسلام کے ہر ہر حکم و فیصلے پر جو فطرت انسانی سے بالکل ہم آہنگ اور موافق ہے۔
اسی صف بندی کے نظام انصاف کو دیکھتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے بڑے ہی اچھے انداز میں اپنی ترجمانی پیش کی ہے کہ
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز!!!!!!!!!
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے!!!!!
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!!!!
اسی طرح اسلام نے حاجیوں اور غیر حاجیوں کے درمیان میں بھی نیکیوں کے بٹوارے اور اس میں توازن و اعتدال کو قائم رکھنے کی جو حکیمانہ اور عادلانہ تدبیر و حکمت پیش کی ہے جن سے کسی کو سعادت میں کمی و بیشی کا کوئی اختلاف اور ملال نہ ہو پائے، اگر کسی خوش قسمت اور صاحب استطاعت مسلمانوں کو حج کی سعادت اور بابرکت فریضہ کی زیارت نصیب ہوجاتی ہے۔ جو اپنے حج مبرور اور عشق و محبت سے بھری قربانیوں کے ذریعے اپنے رب کی رضا حاصل کر لیتے ہیں اور اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ و استغفار کر تے ہوئے تقرب الہی، عشق و محبت، اخلاص وبندگی، تسلیم و رضا، اور قربانی و رضا جوئی والی زندگی کا عہد کر لیتے ہیں اور اپنے پروردگار سے ایفائے عہد ایمان کا پختہ معاہدہ کر لیتے ہیں اور نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی زندگی کے سانچے میں ڈھل جانے کا عزم مصمم کر لیتے ہیں!!
تو وہیں غیر حاجیوں اور خدا ترس بندوں کیلئے بھی نیکیاں بٹورنے میں عدل وانصاف کا نبوی فرمان جاری ہوتا ہے اور ذی الحجہ کے دس دنوں کے اعمال کو پورے سال میں افضل ترین اعمال کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور اسمیں کیے گیے ہر نیکی کو جہاد فی سبیل اللہ کے مساوی بھی قرار دیا جاتا ہے تاکہ امیر اور غریب، حاجی اور غیر حاجی، اولیاء اور موالی کے درمیان ظاہری دوریوں کو یکسر مٹادیا جائے اور محبوب اعمال کا گلدستہ خدا ترس غیر حاجی بندوں کی جھولیوں میں بھی آسکے اور اللہ کا کوئی خاص اور عام بندہ ان ایام کی بشارت وخوشخبری اور رحمت و مغفرت کے پروانے سے محروم نہ رہ سکے، عشرہ ذی الحجہ کے اعمال کو سال کا سب سے پسندیدہ اور رب کے نزدیک سب سے محبوب عمل بتا کر حج اور قربانی کے اجر وثواب جیسے مساوی اعمال کیطرف تمام بندوں کو ترغیب دلانا مقصود ہے تاکہ اسطرح ثواب میں بھی برابری کی تقسیم باقی رہے اور عشرہ ذی الحجہ کی بابرکت گھڑیوں کی عظمت و اہمیت کا ہم سبھوں کو ادراک و احساس بھی ہوسکے اور منشأ خداوندی اور تقرب الہی کے حصول میں کوئی بندہ کسی سے پیچھے نہ ہوسکے، نیکی و بھلائی کے حصول کا ہرفرد کو ہر بیٹھے موقع فراہم ہوسکے اور حاجی اور غیر حاجی بندوں میں تفاوت درجات اور نیکیوں میں کمی و زیادتی کی کسی کو بے جا شکایت نہ ہو سکے۔۔۔کتنے ایسے بندے ہیں جن کے اعمال کو ریاکاری اور دکھاوے کیوجہ سے دھتکار دیا جاتا ہے، اور کتنے ایسے مفلوک الحال ہیں جو بڑے بڑے مالداروں اور بادشاہوں سے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔۔ کاش! اللہ ہم سب کواسلامی عدل وانصاف کی سمجھ نصیب فرمائے تاکہ ہم بھی حصول درجات میں کسی طرح حج میں گئے ہوئے خوش نصیب بندوں سے پیچھے نہ رہ سکیں۔ ورنہ شاعر کے بقول۔۔۔۔۔۔اب تو ہی نہ چاہے تو بہانے ہزار ہیں۔
عشرہ ذی الحجہ میں نیک اعمال کی اہمیت ومعنویت:
جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ ذی الحجہ کی اہمیت و معنویت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: کہ کسی بھی دن میں کیا ہوا عمل اللہ تعالی کو ان دس دن میں کیے ہوئے عمل سے زیادہ محبوب نہیں ہے، صحابہ نے پوچھا! اے اللہ کے رسول۔ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟! آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں! مگر وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ لوٹے۔ (سنن ابی داؤد 2438)۔(تشریح: یعنی ایسے شہید شخص کا مرتبہ بہرحال اونچا رہے گا جو اللہ کے راستے میں اپنی جان و مال کیساتھ شہید ہو گئے، اجر و ثواب میں کوئی انکا مقابلہ نہیں کر سکتا اور ایسے خداترس شہیدوں کے جذبات واحساسات کو ہرحال میں سب پر فوقیت حاصل رہے گی اور انکا درجہ سب سے فائق رہے گا۔ بلکہ وہ زندہ شخص کی مانند رہے گا جسکو اللہ قیامت تک رزق پہنچاتا رہے گا)۔مسند احمد میں عشرہ ذی الحجہ کے ایام کی عظمت و رفعت اسطرح مذکور ہے: کہ کوئی دن اللہ تعالی کے ہاں ان دس دنوں سے عظمت والا نہیں اور نہ ہی کسی دن کا عمل اللہ کو ان دس دنوں کے عمل سے زیادہ محبوب ہے، پس تم ان دس دنوں میں کثرت سے تہلیل: یعنی لاالہ الا اللہ، تکبیر: یعنی اللہ اکبر اور تحمید: یعنی الحمد للہ کہو۔ (مسند احمد: 5446)
حج کے ذریعہ سے گذشتہ گناہوں کا کفارہ:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الحج یھدم ما کان قبلہ، حج گذشتہ سارے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، (صحیح مسلم: 321). حج مبرور اور اسکے مناسک کی سعادت و برکت سے کسی کو انکار نہیں، حج اسلامی رکن ہے جو صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے، حج کے بڑے فضائل و مسائل ہیں، اسکی وجہ بندہ اپنے سابقہ گناہوں سے ایسے ہی دھل جاتا ہے، جیسا کہ اس کی ماں نے اس کو آج ہی پیدا کیا ہو!! اللہ ہم سب کو حج مبرور نصیب فرمائے۔
عشرہ ذی الحجہ میں روزہ کی اہمیت:
حدیث میں مذکور ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عشرہ ذی الحجہ کے میں پابندی سے نو دنوں کا روزہ رکھتے تھے اور بالخصوص عرفہ کے دن سب کو روزہ رکھنے کی تاکید فرماتے تھے۔ 9 ذی الحجہ کے ایک روزہ کی حدیث میں اتنی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے کہ ہر مسلمان روزہ رکھنے کے لئے بے تاب ہو جائے۔ یوم عرفہ کا روزہ گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صیام یوم عرفۃ أحتسب علی اللہ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والسنۃ التی بعدہ.ترجمہ: مجھے امید ہے کہ عرفہ کے دن یعنی نو ذی الحجہ کا روزہ ایک گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے. (صحیح مسلم 2746)۔ اللہ ہمیں بھی روزہ رکھنے کی توفیق بخشے۔
قربانی کی فضیلت و اہمیت:
یوم النحر یعنی قربانی کے دن اللہ کے واسطے خون بہانے سے زیادہ اسکو کو کوئی چیز محبوب نہیں! خون کا ایک قطرہ زمین پر گرتے ہی صدق دل سے کی جانے والی ہر قربانی کو اللہ قبول فرما لیتاہے اور جانوروں کے بالوں کے عوض بندوں کوبے حد و حساب نیکیاں عطا فرماتا ہے۔
سورہ حج میں اللہ کا فرمان ہے جسکا ترجمہ ہے:۔”اور ہم نے تمہارے لیے قربانی کے اُونٹوں کو عبادتِ اِلٰہی کی نشانی اور یادگار مقرر کیا ہے، ان میں تمہارے لیے اور بھی فائدے ہیں، سو تم اُن کو نحر کرتے وقت قطار میں کھڑا کرکے اُن پر اللہ کا نام لیا کرو اور پھر جب وہ اپنے پہلو پر گر پڑیں، تو اُن کے گوشت میں سے تم خود بھی کھانا چاہو تو کھاؤ اور فقیر کو بھی کھلاؤ، خواہ وہ صبر سے بیٹھنے والا ہو یا سوال کرتا پھرتا ہو، جس طرح ہم نے اِن جانوروں کی قربانی کا حال بیان کیا، اِسی طرح اُن کو تمہارا تابع دار بنایا، تاکہ تم شکر بجالاؤ، اللہ تعالیٰ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت اور خون ہرگز نہیں پہنچتا، بلکہ اس کے پاس تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے، اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کردِیا ہے، تاکہ تم اس احسان پر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرو کہ اس نے تم کو قربانی کی صحیح راہ بتائی، اور اے پیغمبر!مخلصین کو خوش خبری سنا دیجیے“۔(سورہ الحج:36-37)
سورہ حج ہی میں دوسرے مقام پر اسے شعائر اللہ میں سے قرار دیتے ہوئے اس کی عظمت بتائی گئی اور قربانی کی تعظیم کو دل میں پائے جانے والے تقویٰ خداوندی کا مظہر قرار دیا ہے۔قرآن کا فرمان ہے،”وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ“۔(سورہ حج: 32)۔ترجمہ:”اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کا پورا احترام قائم رکھے تو ان شعائر کا یہ احترام دلوں کی پرہیزگاری سے ہوا کرتا ہے“۔
ذوالحجہ کی تکبیرات:
صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر اور ابو ھریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان کی تکبیر سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن علی رضی اللہ عنہ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے،دو طرح کی تکبیرات کے کلمات احادیث میں مذکور ہیں، آپ حضرات ان میں سے جو چاہیں ان دس دنوں میں خوب پڑھیں اور نویں ذی الحجہ کے فجر سے تیرہویں ذی الحجہ کے عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بآواز بلند پڑھیں، عورتیں بھی اسکا اہتمام کریں۔ (1) اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد.ترجمہ: سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے۔ (مصنف ابن شیبہ 5,694. فتح الباری).(2)اللہ أکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃو اصیلاً (صحیح مسلم)
عشرہ ذی الحجہ میں کئے جانے والے اعمال کا سرسری جائزہ:
غرض کے عشرہ ذی الحجہ میں نیکی کے کام کی مقدار کو ہمیں دوگنا کردینا چاہئے اور ان دس دنوں میں نیک اعمال میں خوب مداومت کرنی چاہئے۔ مختصرا ان اعمال کی طرف ہم قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ جن کا ہمیں بالخصوص ان دں وں میں اہتمام کرنا چاہئے۔ راقم السطور کو بھی اللہ اس بات کی توفیق بخشے اور قارئین کرام سے بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کی درخواست ہے۔
عشرہ ذی الحجہ میں کئے جانے والے نیک کام:
پنجگانہ نماز اور نوافل کا اہتمام کریں: اول وقت میں نماز ادا کریں۔ نمازخشوع و خضوع کے ساتھ ادا کریں۔ ہر رکعت میں مختلف سورتیں پڑھیں۔ اشراق و چاشت کی نوافل پڑھیں۔ تہجد میں طویل قرأت کریں. مرد حضرات جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں.
روزہ کا اہتمام کریں:
۹ذوالحجہ کا بالخصوص روزہ رکھیں۔ زیادہ سے زیادہ نفلی روزے رکھیں۔ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھیں۔ قضا شدہ روزے رکھیں۔
عید و قربانی کے اعمال:
قربانی تک ناخن اور بال نہ کاٹیں۔ عید کے دن کی سنتوں پر عمل کریں۔ عید کی نماز کا اہتمام کریں۔ عزیز و اقارب سے ملاقات کریں۔ اخلاص نیت سے قربانی کریں۔ قربانی کا گوشت کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں اور باٹیں۔
قرآن مجید کی تلاوت و تفسیر کریں:
قرآن مجید کی بکثرت تلاوت کریں۔ مختلف قراء کی تلاوت کو سننیں۔قرآن کی سورتیں حفظ کریں۔ حفظ قرآن کو دہرائیں اور اسے تازہ کریں۔قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر پڑھیں یا اسے سننے کا اہتمام کریں۔اسکے معنی پر خوب غور و فکر کریں۔ دوسروں تک قرآن کا پیغام پہنچائیں۔
خوب صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں:
زکوۃ و صدقات کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ زائد از ضرورت چیزیں صدقہ کریں۔کوئی پسندیدہ ترین چیز اللہ کی راہ میں پیش کریں۔ والدین، بیوی، بچوں اور عزیز و اقارب پر خرچ کریں۔
ذکر و دعا میں کثرت پیدا کریں:
تہلیل، تکبیر اور تحمید کا اہتمام کریں۔ صبح و شام کے اذکار میں پابندی کریں۔ استغفار اور ذکر کی کثرت کریں۔ درود شریف کثرت سے پڑھیں.مقبول اوقات میں دعائیں مانگیں. خصوصا عرفہ کے دن انکا اہتمام فرمائیں۔قرآنی دعائیں اورنبوی اذکار یاد کریں۔
خدمت خلق کے لئے کرنے والے کام:
رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں. پڑوسیوں کی خبر گیری کریں۔ ضرورت مندوں کی مدد کریں.دین کی تعلیم و تبلیغ میں حصہ لیں. اجتماعی بھلائی کے کاموں میں رضاکارانہ خدمت انجام دیں۔
متفرق اعمال کا اہتمام کریں:
نیکی کا کوئی موقع ضائع اور برباد نہ کریں۔ موبائل کے منفیات میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔بے مقصد کاموں اور باتوں سے پرہیز کریں۔ گناہوں اور نواہی سے خوب بچیں۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ مفید کتب و مضامین لکھیں اور اسکی کاپیاں سوشل میڈیا کے ذریعے خوب تقسیم کریں۔
نوٹ:- مضمون افادہ عام کی غرض سے تیار کیا گیا ہے، اللہ ہم سب کو توفیق اور جزائے خیر عطا فرمائے اور تمام قارئین بشمول راقم السطور کو ان اوصاف وصفات کا جامع وحامل بنائے اور ہم سب کی پریشانیوں اور مصائب ومشکلات اور امراض و بلاؤں کو ملک و معاشرے سے دور فرمائے اور کورونا وبا اور لاک ڈاؤن کیوجہ سے ہر طرح کی دقتوں کا ازالہ فرمائے اور پوری انسانیت کو تنبیہ ربانی سے ہدایت یاب بنائے اور ہم سب سے راضی ہوجائے اور ہمارا مقام و مقصد بلند فرما دے۔